تاریخ کی بدترین حکمرانی

شاہ محمود قریشی صاحب نے کہا ہے کہ حکومت گرانا مسائل کا حل نہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ حکومت تو مسائل کے حل کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ جب آپ حکومت ہی ختم کردیں، تو مسائل کون حل کرے گا؟ لیکن شاہ محمود صاحب کو یہ بھی بتا یا چاہیے تھا کہ اگر حکومت گرانا مسائل کا حل نہیں، تو پھر مسائل کا حل کیا ہے؟ کیوں کہ ان کے بیان سے اس بات کی تصدیق تو ہوگئی کہ مسائل ہیں۔ اس وقت جو صورتِ حال ہے اور میڈیا سے جو ملکی صورت حال سامنے آتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ پورا ملک ایک افراتفری، خلفشار اور خوف زدگی کا شکار ہے۔ محکمۂ تعلیم میں جو نئی اصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ معیار کے سلسلے میں جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انتظامی امور کی درستی اور اصلاح کے لیے جو پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ ان کے نتیجے میں اساتذہ کے اندر بے چینی اور ایک خوف کی کیفیت پھیلی ہوئی ہے۔ محکمۂ تعلیم کو درست کرنے اور تعلیم کے معیار کو اونچا کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، ان کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں اور نہ ان کی افادیت سے کوئی انکار کر سکتا ہے، لیکن شائد حکمت عملی میں کوئی نقص اور بنیادی خرابی ہے، جس کی وجہ سے پوری کمیونٹی میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔
اس طرح محکمۂ صحت کا مسئلہ ہے۔ سینئر ڈاکٹرز استعفا دے رہے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز آئے روز ہڑتال پر ہوتے ہیں۔ پیرا میڈیکل سٹاف اپنے مطالبات کے لیے بار بار ہڑتال کر رہا ہے۔چوں کہ میڈیا فعال ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر مریض اور ہسپتال کے عملے کے درمیان کوئی نہ کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے،جس کی وجہ سے مریض کے لواحقین بھی احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں اور ہسپتال کا عملہ بھی اپنے حقوق اورفرائض میں مداخلت پر شاکی اور ناراض رہتا ہے۔ اس بارے میں اگر دیکھا جائے، تو حکومتی بے بصیرتی اور ناقص حکمت عملی کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہی نہیں ہوتاکہ کوئی ذمہ دار حکومتی وزیر مشیر ان مسائل کے حل کے لیے کوئی کردار ادا کرتا ہو۔ کیوں کہ جو وزیر مشیر حکومتی سیٹ اَپ میں لیے گئے ہیں، وہ صرف پارٹی وابستگی پر لیے گئے ہیں۔ نہ ان کے پاس متعلقہ محکمے کے بارے میں کوئی تجربہ ہے، نہ ان میں مسائل کے حل کے لیے کوئی سیاسی شعور ہے۔ بس مختلف تقریبات میں بے سروپا تقریریں کرنا ان کا کام ہے۔ گرانی، مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر باہر آگیا ہے اور اس نے اوسط درجے کی آمدنی رکھنے والے طبقے کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ نچلے متوسط طبقے کی صورتِ حال تو اس سے بھی زیادہ ابتر اور دگر گوں ہے۔ واپڈا، سوئی گیس اور دیگر خود مختار اداروں کو تو گویا عوام کو لوٹنے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی ہے۔ آئے روز اتنے ماہانہ بل آتے ہیں کہ دیکھتے ہی ہوش اڑ جاتے ہیں اور جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ آٹھ ماہ کی تحریک انصاف کی عمران خان کی قیادت میں حکومت نے عوام کو یہ احساس ضرور دیا ہے کہ عمران خان کی قیادت میں ہم پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا عذاب ناز ل ہو چکا ہے اور اب اس عذاب سے چھٹکارے کی صرف ایک صورت ہے کہ اس حکومت کے خلاف تحریک چلا کر اس سے گلو خلاصی کرائی جائے، لیکن یہ بھی کوئی آسان حل نہیں۔ اگر چہ عوام کی قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے اور عوام سڑکوں پر نکلنے کے لیے صرف ایک آواز اور ایک نعرے کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف یہ دیکھ کر مایوسی بڑھ جاتی ہے کہ پھر متبادل کون؟ تو اگر حقیقت کی نظر سے جائزہ لیا جائے، تو متبادل کوئی نہیں۔ ن لیگ کے قائد نواز شریف پنجاب کے وزیرِ خزانہ سے لے کر وزیرِ اعلیٰ تک اور تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ وہ خود کچھ بھی کہیں۔ کیوں کہ سیاست دانوں کو اپنی چوری چکاری، ڈاکہ زنی، عیش و عشرت اور بری حکومت کرنے کے دفاع کے لیے ڈھیر سارے دلائل اَزبر ہوتے ہیں اور وہ تمام جرائم کے باوجود اپنے آپ کو فرشتہ صفت ثابت کرنے کے ماہر ہوتے ہیں، لیکن اگر مختصرا عرض کیا جائے، تو نواز شریف ہی موجودہ مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ زرداری کا تو نام ہی نا اہلیت اور کرپشن کے ہم معنی بن چکا ہے۔ان دونوں پارٹیوں کے مختلف رہنما اس وقت مختلف الزامات کے تحت نیب میں زیر تفتیش ہیں اور تاریخیں بھگت رہے ہیں۔ لیکن جس طریقے سے ان دو پارٹیوں کے افراد کا احتساب ہو رہا ہے۔ وہ بجائے خود مذاق بن کر رہ گیا ہے اور نیب کے ادارے کے بارے میں اب شکوک سے بڑھ کر عوام کے درمیان یہ یقینی احساس پیدا ہوا ہے کہ یہ ادارہ بجائے خود بد عنوان اور نا اہل ہے۔ اتنے عرصے تک کسی ایک کیس کا نتیجہ نہ نکلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ادارے کے اندر مجرموں اور ملزموں کے ہمدرد اور بہی خواہ موجود ہیں۔ عدالتی نظام کے بارے میں یہ حقیقت سامنے آگئی کہ انصاف اور عدل فراہم کرنے والا یہ ادارہ بھی ازکارِ رفتہ، قانونی پیچیدگیوں کا شکار اور شخصی طور پر تضادات کا شکار ہے۔ ثاقب نثار کا انداز اور طریقِ کار کچھ اور تھا اور موجودہ چیف کا اندازِ فکر و نظر کچھ اور منظر سامنے لا رہا ہے۔ نیب مجرموں کو پکڑتا ہے اور عدالت ان کی ضمانتیں منظور کرکے نیب کو گرفتاری سے روک دیتی ہے۔ کئی ایسے مجرم جن کو پہلے سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ اب وہ بے قصور قرار دے کر رہا کر دیے گئے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا معاملہ بھی عجیب و غریب ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی اگر ایک تقریر پر مورد الزام قرار دے کر برخواست کر دیے گئے، تو سب کو معلوم ہوا کہ تقریر کس کے خلاف تھی۔ اور کس کے خلاف تقریر پر شوکت عزیز صدیقی صاحب جیسے نڈر، بے باک، انصاف پسند جج کو بر طرف کیا گیا اور جب اس نے مطالبہ کیا کہ میرا کیس بند کمرے کے بجائے کھلی عدالت میں سنا جائے، تو آج تک ان کی شنوائی نہ ہو سکی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ نواز زرداری دور کے بیرونی قرضوں کو رونے والوں نے 8 ماہ کے عرصہ حکومت میں ایک سوارب کے قرضے لیے۔ پہلے قوم کو یہ جھانسہ دیا گیا کہ ہم اپنے اقتصادی مسائل خود اور اپنے دوستوں کی مدد سے حل کریں گے اور آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، لیکن اب اس مضحکہ خیز حکمت عملی کو دیکھو کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی اور قرضے کی شرائط طے کیے بغیر آئی ایم ایف کی تمام شرائط پیشگی مان لی گئیں، جس کے نتیجے میں روپے کی قدر کم ہوگئی۔ ڈالر ایک سو چوالیس روپے تک پہنچ گیا۔ سٹاک ایکسچینج کریش کر گیا۔ مہنگائی کا طوفان آگیااور بارہ ارب ڈالر قرضے کا مسئلہ آئی ایم ایف کے ساتھ اب بھی زیرِ غور ہے۔ اور جب یہ شرائط طے ہوں گی، تو نتیجے میں اور کیا کچھ سامنے آئے گا؟ یہ وہ اقتصادی جادوگر ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ آتے ہی پاکستان کے سارے اقتصادی مسائل حل ہو جائیں گے۔
اخباروں سے تحریک انصاف حکومت کی موجودگی کا پتا اس لحاظ سے چلتا ہے کہ آئے روز انتظامی مشینری میں ردوبدل ایک معمول ہے اور 8 ماہ کے عرصے میں اس حکومت نے اہل، قابل اور دیانت دار افسران کو ان کے محکموں میں تعینات نہیں کیا۔ کے پی کے اور پنجاب صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی شخصیتیں، اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر عوام میں زیرِ بحث رہتی ہیں اور عوام اس بحث سے کوئی نتیجہ نکالنے میں ناکام رہتے ہیں کہ عمران خان نے ان دو شخصیتوں کو کن مصالح اور منافع کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے؟
ایسے بہت سی باتیں ہیں، جن کے بارے میں عوام کنفیوژ ہیں۔ اب اگر عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ حکومت کے خلاف تحریک چلاتے ہیں اور بقول شاہ محمود قریشی حکومت کو گرا دیتے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیادت کون کرے گا؟ نواز زرداری تو اپنے کرتوتوں کے نتیجے میں اس قابل نہیں کہ ان جرائم اور شرمناک کارکردگی کے باوجود عوامی قیادت کرسکیں اور نہ ان کے پاس سڑکوں پر نکلنے والے اور پولیس کی لاٹھیاں برداشت کرنے والے کارکن ہیں۔ مولانا فضل الرحمن صاحب بڑے بڑے جلسے تو کر سکتے ہیں، ملین مارچ بھی شاید کر سکیں، لیکن ان کا بنیادی حلقہ جو مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور مساجد کے اماموں پر مشتمل ہے، اس قابل نہیں کہ عوام کی قیادت کر سکیں۔
لے دے کے ایک جماعت اسلامی رہ جاتی ہے جس نے کئی مرتبہ کئی حکومتوں کو اپنے دھرنوں، تحریکوں اور جدوجہد کے ذریعے چلتا کیا ہے، لیکن اس کا پھل ہمیشہ دوسروں کی جھولی میں گرا ہے اور جماعت کی تحریک اور جدوجہد کا نتیجہ دوسروں نے ہائی جیک کیا ہے۔ اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ نہ جماعت کے کارکنوں میں اتنا دم خم ہے نہ وہ پہلا سا جوش و جذبہ اور جنون باقی ہے۔ ایسے میں قوم اس مخمصے میں گرفتار ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی اس بلائے نا گہانی سے چھٹکارا ملے گا، تو کیسے؟ کیوں کہ اب بات بد سے بدتر اور بدتر سے بد ترین تک پہنچ چکی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اس قوم کے حال پر رحم فرمائے، آمین!

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔