تاریخ کے سچ پہ سوچ بے بس ہو جاتی تھی۔ بزرگوں سے سنتے تو حیرت ہوتی تھی کہ کیسے اہلِ کوفہ تھے کہ منافقت کی نئی تاریخ رقم کر دی۔ دل ساتھ تھے مگر تلواریں خانوارۂ رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نہیں تھیں۔ حیرت اس بات پہ بھی ہوتی تھی کہ نہ جانے کیسے وہ ظلم ہوتا دیکھتے رہے اور اپنے دروازے بند کر کے دل میں بس ساتھ دیتے رہے اور عملی طور پہ وہ ساتھ نہ دے سکے۔ لاشۂ مسلمؑ پامال ہوتا رہا کوفہ کے بازاروں میں اور اُن کی تلواریں نیام چھوڑنے کو تیار نہ ہوئیں۔ فرزندانِ مُسلمؑ شہید کر دیے گئے اور اہلِ کوفہ جن کے خطوں سے ان کے جذبات واضح تھے، وہ اپنے ہی لکھے ہوئے کی نفی کر گئے۔
کیسے اہلِ کوفہ کے دلوں میں منافقت نے گھر کر لیا ہو گا کہ وہ جو دل میں محبت رکھتے تھے لیکن اُن کے ہاتھ خاندانِ نبوت صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم پہ ہونے والے ظلم پہ بلند نہ ہو سکے۔ مفادات وابستہ تھے؟ خوف تھا یا بزدلی؟ بزرگوں کی باتیں، تاریخ کا سچ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیسے ہو گیا۔
آج مگر اہلِ عرب کے کشمیر میں ظلم و ستم روا رکھنے والے وقت کے فرعون کو اعزاز بخشنے سے کوفیوں کی منافقت کا راز بھی کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا ہے۔ وہ بھی مفادات کے گھن چکر میں گم تھے۔ آج بھی اہلِ عرب مفادات کو ترجیح دے چکے ہیں۔ کل کے کوفی تلواریں نیام میں ڈال کے دل سے ساتھ تھے۔ آج کے اہلِ عرب بھی کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے کے گلے میں عزت کے ہار پہنا رہے ہیں۔ اور اس سے بغلگیر ہو رہے ہیں۔ اسے عزت و احترام کے ساتھ اپنے پہلو میں بٹھا رہے ہیں۔ ایمان کا سب سے کمزور درجہ دل میں ظلم کو ظلم سمجھنا ہے۔ اور حیرت اس بات پہ ہے کہ تمام اختیار رکھتے ہوئے بھی مسلم دنیا کے راہنما اس کمزور ترین درجے پہ بھی نہیں ۔ بلکہ یہ کیا مسلمانوں کا خون جن کے ہاتھوں پہ لگا ہے، ان کے ہاتھ پاک دھرتی پہ خود دھلوا رہے اور اپنے ساتھ بٹھا رہے ہیں۔
سیاست اپنی جگہ لیکن کیا ہم مسلم اُمہ نام کی کسی اصطلاح کو آج کے بعد بھی دوبارہ استعمال کرتے ہوئے کچھ سوچیں گے کہ کیسی اُمہ؟ اُمہ کی مثال تو عمارت کی سی تھی۔ یہ بھلا کیسی عمارت ہے کہ بنیادوں میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہے اور دیواریں چین میں ہیں۔ اُمہ کو تو ایک جسم کہا گیا تھا، لیکن یہ جسم کو کیا ہو رہا کہ جسم کے ایک حصے کو جو لہو لہان کر رہا ہے، وہ ہماری عزت و تکریم کا حقدار ٹھہر رہا ہے؟ کیا مسلم دُنیا کے راہبر ہی راہزن تو نہیں بن بیٹھے؟ کیا جن کے ہاتھوں میں لشکر کی سالاری تھی وہ لشکر کو آگے کر کے بھاگ تو نہیں نکلے؟57 ممالک، دنیا کے قیمتی وسائل سے مالا مال، فوجی طاقت ایسی کہ دشمن ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے، افرادی قوت ایسی کہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی، اور حال یہ کہ ایک جانب مسلمان ظلم و ستم سہہ رہے اور دوسری جانب ظالم انعام و کرام سے نوازا جا رہا ہے؟ یہی مسلم اُمہ ہے جس سے اقبال نیل کے ساحل سے کاشغر تک متحد دیکھنے کی تمنا کیے ہوئے تھے؟ یہی وہ مسلم دنیا کے راہبر ہیں جن کی راہبری میں ہم نے دنیا فتح کرنے کے سپنے دیکھے تھے؟
مفادات،مسلم اُمہ کے افسانوی و مثالی خیال کو پاش پاش کر رہے ہیں۔ جی ہاں ،مفادات مسلم اُمہ کی حقیقی طاقت کو کمزوری میں بدل رہے ہیں۔ کون ہے مسلم اُمہ کا راہبر، کس نے مسلم دُنیا کی سربراہی کرنی ہے؟ انہوں نے جن کو اپنے مفادات عزیز ہیں؟ ایک طرف آئل ریفائنریاں مسلم اُمہ سے زیادہ عزیز ہیں تو دوسری جانب تجارتی حجم اربوں ڈالر تک جانا مسلم اُمہ کے مفادات سے اہم ہے۔ یارانِ حال کہتے ہیں کہ جناب مفادات ہی تو اہم ہیں۔ وہ بھلا ہمارے مفادات کا تحفظ کیوں کریں، ہمارے حق میں کلمۂ حق کیوں بلند کریں۔ تو عرض اتنی سی ہے کہ ہر طرح کی جذباتی وابستگی سے ہٹ کے ایک لمحہ اپنا محاسبہ بھی شاید کرنا ضروری ہے۔ مقامات مقدسہ کی حرمت پہ ہماری جان بھی قربان۔ جو اس جانب دیکھے اس کا کلیجہ نکال لیجیے۔ لیکن شاہوں کی وفاداری کا دم نہ بھریے۔ کچھ اپنے آپ کو بھی تبدیل کر لیجیے۔ ہم کیا کرائے کے لیے دستیاب ہیں کہ جب بھی کڑا وقت آئے ہمیں بلاوا بھیج دیا جائے؟ تلور پالیسی میں ذرا خدارا تھوڑی تبدیلی لے آئیے۔
کیا ہم بس شکار کے لیے کرائے کی گاڑیاں، کرائے کے خیمے، اور خصوصی ائیرپورٹس بنانے کے لیے ہی رہ گئے ہیں؟ کیا ہم نے اُن پہ آج تک ثابت کیا کہ ہم مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں؟ ہم لینے والا ہاتھ کب تک بنے رہیں گے۔ کیا دنیا کبھی لینے والے ہاتھ کی عزت کر پائی ہے؟ اپنے عوام کو بتائیں، کہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کے لیے کیا سختی برداشت کرنی ہے، برداشت کریں گے۔ لیکن یہ ڈرائیوری چھوڑ دیجیے کہ ہم بچھ بچھ جائیں اُن کے آگے اور وہ مسلمان بہن بھائیوں کی نسل کشی کرنے والوں کو میٹھے پکوان کھلائیں۔
دنیا اگر اپنے مفادات اہم رکھ رہی ہے تو ہم کیوں نا رکھیں؟ ہم کیوں ضرورت سے زیادہ بچھے جائیں۔ کیا پوری دنیا مانگے پہ ہی گزارہ کرتی ہے۔ نوے دن، چھ ماہ، ایک سال، اب ایک سال سے بھی زیادہ ہو گیا۔ صاحب! اپنے آپ کو سنبھالیے۔ یہاں کوئی کسی کا نہیں یہ تو آپ نے دیکھ لیا۔ اور پچھلوں نے کیا کر ڈالا، بحث سے نکلیے۔ کوئی قصور وار ہے تو الٹا لٹکائیے۔ ملک کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کیجیے۔ جواب دیجیے دنیا کو بھی دشمن کو بھی۔ اور بیانات سے بڑھ کے عملی میدان میں قدم رکھے دیجیے۔ جن کو ہم جھک کے سلام کرتے ہیں وہ ہمارے دشمن کو ہمارے سینے پہ مونگ دلتے ہوئے ساتھ بٹھا رہے ہیں۔ تو ہمیں کس عقل کے اندھے نے یہ صلاح دی ہے کہ ہم اسے نظر انداز کرتے رہیں؟ مفادات ان کو عزیز ہیں تو اپنے مفادات وہاں وابستہ کیجیے جہاں ان کی دال نہیں گلتی۔
ہمسائیوں سے معاملات تھوڑے سنبھالیے۔ جہاں اُن کے پر جلتے ہیں، وہاں آپ قدم رکھ دیجیے۔ عقل اُن کی ٹھکانے خود بخود آئے گی۔ آپ کب تک جذباتیت کے ساتھ مملکت خدادا کو چلاتے رہیں گے۔ وہ اپنی پالیساں اپنے مطابق چلا رہے ہیں تو ہم اپنی پالیسیاں اُن کے مطابق کب تک چلاتے رہیں گے۔ وہ راہبر بننا گوارا نہیں کر رہے تو تھوڑا اپنی سوچ کو وسعت دیجیے۔ دُنیا بھری پڑی ہے۔ نئے تعلق بنائیے، نیا ساتھ چنے۔ راہبری کرنے کو ساتھیوں کے ساتھ مل کے مسلم اُمہ کے بے جان گھوڑے میں نئی زندگی ڈالیے۔ خود آگے بڑھیے۔ ہم خیال آگے بڑھائیے۔
پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ عرب کے شیوخ ہوں یا یورپ کے گورے، ہر ایک کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ مسلم اُمہ کو اگر اُس کے راہبر اُمہ نہیں بنا پا رہے تو نئے راہبر تلاش کیجیے۔ اور راہبری پہ کسی ایک کی اجارہ داری تو ہے نہیں۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔