آپ نے ٹائی ٹینک فلم ضرور دیکھی ہوگی۔ اگر نہیں دیکھی، تو پہلی ہی فرصت میں اس فلم کو دیکھ لیجیے۔ میں آج تک اس فلم کا تھرمو ڈائی نامکس کے ساتھ تعلق نہیں سمجھ سکا۔ ہمارے ایک پروفیسر صاحب فائنل وائیوا میں یہ سوال اکثر پوچھا کرتے کہ فلم میں ٹائی ٹینک کیوں ڈوبا؟ ہم نیچر کے شریر کبھی کھل کر وجہ نہ بتا سکے۔ ایک واحد لڑکا تھا جس نے ہمت کر کے ہیرو اور ہیروئن کے بوس و کنار کو جہاز کے ڈوبنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ذرا سا غور کیا، تو پتا چلا کہ ملک ہو، جہاز ہو یا پھر معاشرہ ہمیشہ کسی نہ کسی ہوس کے نتیجے میں ڈوبا کرتے ہیں۔

میں آج تک اس فلم کا تھرمو ڈائی نامکس کے ساتھ تعلق نہیں سمجھ سکا۔ (Photo: YouTube)

آج سے دس سال پہلے میں دوستوں کو کہا کرتا تھا کہ یہ معاشرہ اور اس کے مکین ڈوبتے چلے جا رہے ہیں، تو سب یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے کہ یار تم کچھ زیادہ ہی حساس ہو۔ ہلکی پھلکی لوٹ مار، ماراماری، دھوکا، فراڈ تو ہر معاشرے میں چلتا رہتا ہے۔ فکر نہ کیا کرو۔ یہ ملک ڈوبنے والا نہیں۔ موج کرو، غم غلط کرو، انجوائے کرو۔مگر میرا پوائنٹ آف ویو قطعی مختلف ہے۔ جب ٹائی ٹینک آئس برگ سے ٹکراتا ہے، تو فوراً تھوڑا ہی ڈوب جاتا ہے۔ اس کی سب سے نچلی منزل میں معمولی سی دراڑ آتی ہے۔ پانی نچلی منز ل میں داخل ہونے لگتا ہے۔ جہاز مکمل طور پر بتیوں میں نہایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ میوزک ہال میں رقص و سرود جاری رہتا ہے۔ پانی نچلی منزل کراس کر کے انجن روم تک جا پہنچتا ہے۔ جہاز کی رونقیں پھر بھی ماند نہیں پڑتیں۔ پھر جب پانی رفتار سے اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے، تو لوگوں کی چیخ وپکار بڑھنا شروع ہوتی ہے، مگر دور کھڑے ایک جہاز کے کپتان کو یہی محسوس ہوتا رہتا ہے کہ جیسے جہاز کو کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے بعد جہاز جھکنا شروع ہو جاتا ہے اور درمیان سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لائٹیں بجھ جاتی ہیں، ہر چیز ختم۔ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔

جو لوگ آج بھی یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ملک میں کچھ برا نہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی جیبیں گرم ہیں، جن کے چولہے آباد ہیں، جو زندگی سے بھرپور مزہ کشید کر رہے ہیں، یا وہ ہیں جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ یہ ابتر ملکی حالات کا تذکرہ تک نہیں سننا چاہتے۔ کیونکہ اس سے ان کی موج ماری میں خلل پڑتا ہے۔ یہ حساس قسم کے عیاش لوگ کسی قسم کے انقلاب کا ذکر سن کر ہی خزاں رسیدہ پتوں کی طرح کانپنے لگتے ہیں۔ پھر توتے کی طرح سب اچھا ہے کی ’’ٹیں ٹیں‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب بالکل اچھا نہیں ہے۔ باقی ہر طرح کی کرپشن کو چھوڑ دیں، جو حال دودھ کا ہو رہا ہے وہ ذرا سن لیں۔ دودھ ہماری بنیادی غذا ہے۔ اس کے بغیر بچے نا مکمل اور بڑے ادھورے ہیں۔ ہم نے synthetic milk کی نئی قسم دریافت کر لی ہے۔ جعلی فیکٹریاں یہ دودھ بنا رہی ہیں اور ہم پی رہے ہیں۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں گھٹیا ترین خشک دودھ، تھرڈ کلاس کوکنگ آئل اور پانی شامل ہے۔ یہ سب مکس کر کے پیارے ہم وطنوں کے لئے خالص اور معیاری دودھ تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری پر چودہ روپے خرچہ آتا ہے۔ اب یہ بھلے بیس روپے بکے یا پچاس، جتنا داؤ لگ جائے وہ منافع ہی منافع ہے۔ یہ دودھ انسانی جسم میں جا کر کیا گل کھلاتا ہو گا، یہ دریافت کرنا ابھی باقی ہے۔

ہم نے synthetic milk کی نئی قسم دریافت کر لی ہے۔ جعلی فیکٹریاں یہ دودھ بنا رہی ہیں اور ہم پی رہے ہیں۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں گھٹیا ترین خشک دودھ، تھرڈ کلاس کوکنگ آئل اور پانی شامل ہے۔ (Photo: The Express Tribune)

ہماری رحمدلی ملاحظہ کیجئے ہم جانوروں تک کو بخشنے پر تیار نہیں۔ جو بھینس پورا دودھ نہ اتارتی ہو یا جس کا بچھڑا مر جائے، تو ایسے جانور سے انجکشن لگا کر دودھ نکالا جاتا ہے۔ یہ artificial hormones جانور کی عمر تو کم کرتے ہی ہیں، ایسے جانوروں کا دودھ پینے والوں کے گردوں، آنکھوں اور یادداشت پر بھی برے اثرات ڈالتا ہے۔ دودھ دوہنے کے بعد اسے خراب ہونے سے بچانے کے لئے یا تو اس میں برف وافر مقدار میں ڈال دی جاتی ہے یا پھر اس میں فارمولین کے چند قطرے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہ فارمولین نامی کیمیکل بنیادی طور پر لاشوں کو حنوط کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیمیکل آزمائی کے بعد دودھ میں سے کریم نکال لی جاتی ہے جس کی وجہ سے دودھ پتلا ہو جاتا ہے۔ دوبارہ گاڑھا کرنے کے لئے اس میں امپورٹڈ فیٹ(چربی) شامل کی جاتی ہے جو کہ گورے سپلائی کرتے ہیں۔ یہ سوچنا آپ کا کام ہے کہ وہ کس جانور کی سپلائی کرتے ہوں گے؟ چربی تو گھوڑے اور مگرمچھ میں بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مزید گاڑھا کرنے اور فیٹ کی پراپر مکسنگ کے لئے اس میں یوریا مکس کی جاتی ہے۔ اس سب تجربہ سازی کے بعد دودھ کا رنگ برقرار نہیں رہتا۔ رنگت نکھارنے کے لئے اس میں واشنگ پاؤڈر یا کاسٹک سوڈا ملایا جاتا ہے۔لیجیے، مزے دار گاڑھا دودھ پینے کے لئے تیار ہے۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ اس سے چائے بنائیں، بچوں کو پلا کر تندرست و توانا بنائیں یا پھر اس دودھ کو واشنگ مشین میں ڈال کر کپڑے دھوئیں۔ کیسی لگی آپ کو یہ خالص دودھ کی ترکیب؟ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہے یا ابھی بھی ٹائی ٹینک جگمگاتا ناچتا گاتا اور جھومتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہم سب یہ ملاوٹ شدہ دودھ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ ہم سب ایک سے بڑھ کر ایک چور ہیں۔ میرے ایک دوست نے اس مسئلے کا ایک حل نکالا ہوا ہے۔ وہ ہر ہفتے ایک بکرا اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح کرواتا ہے۔ دودھ کے لئے اس نے ایک پالتو گائے رکھی ہوئی ہے۔ ایک ڈربے میں دیسی مرغیاں بھی پالتا ہے۔ اس کے پاس تو زرعی زمیں مہیا ہے۔ شہر سے باہر رہتا ہے۔ سو یہ سب افورڈ کر سکتا ہے۔کیا آج کی مصروف زندگی میں ہم ان صاحب کے حل کو اپنا سکتے ہیں؟ جواب ایک بڑی ’’نا‘‘ ہے۔ یہ کرپشن کا بدترین لیول ہے کہ ہماری خوراک تک آلودہ اور گھٹیا ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود ہر طرف ترقی کے شادیانے بج رہے ہیں۔ سب اچھا ہے کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہم بڑی تیزی سے ڈوبتے جا رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی جگہ کرپشن کا بے تاج بادشاہ ہے۔ دوسروں کو غلط کہنا اور خود کو درست ثابت کرنا ہم پر ختم ہے۔

جب سقراط کو زہر کا پیالہ پینے کے لئے دیا گیا، تو اس کے شاگرد زاروقطار رونے لگے۔ سقراط نے ان سے پوچھا: ’’کیوں رو رہے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ آپ بے گناہ مارے جا رہے ہیں۔ سقراط بولا: ’’تو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں گناہ کرتے ہوئے مارا جاؤں۔‘‘(Photo: pemptousia.com)

دفاتر میں تو اب ایک نئی تھیوری آف کرپشن آچکی ہے۔ اکثر لوگ یہ گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ میرا کام تو بالکل سیدھا اور جائز ہے۔ ہم کوئی فیور تو نہیں مانگ رہے۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پیسے ہیں کام کے۔ کام دو طرح کے ہوتے ہیں جائز اور ناجائز۔ کام اگر جائز ہے، تو پیسے بھی کم اور جائز دینا ہوں گے اور اگر کام ناجایز ہے، تو پھر پیسے اور ریٹ بھی زیادہ۔ کوئی شک نہیں کہ ہم نے مثالی اور لاجواب ترقی کی ہے۔ اکثر شریف لوگ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں کہ شرافت کا حال وہ دیکھا زمانے میں کہ شرافت چھوڑ دی ہم نے۔ بچے کھچے شریف سقراط کی طرح روز اذیت کا پیالہ پی کر خود کو تسلی دیتے ہیں۔ سزائے موت سنائے جانے کے بعد جب سقراط کو زہر کا پیالہ پینے کے لئے دیا گیا، تو اس کے شاگرد زاروقطار رونے لگے۔ سقراط نے ان سے پوچھا: ’’کیوں رو رہے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ آپ بے گناہ مارے جا رہے ہیں۔ سقراط بولا: ’’تو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں گناہ کرتے ہوئے مارا جاؤں۔‘‘
بات ختم کرنے سے پہلے آخری بات۔ ’’ٹھیکے دار نے بچوں کا اسکول ناقص میٹریل سے بنایا اور اپنی زلزلہ پروف کوٹھی کھڑی کر دی۔ بچے زلزلے میں کچلے گئے اور کوٹھی محفوظ رہی۔ جمع کے خطبہ میں مولوی چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ زلزلے اﷲکا عذاب ہیں اور اگلی صف میں بیٹھا ٹھیکیدار بیشک بیشک کا ورد کئے جا رہا تھا۔‘‘اشفاق صاحب مرحوم نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ’’جس معاشرہ میں سب چلتا ہے، وہ معاشرہ مشکل ہی سے چلتا ہے۔‘‘

…………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔