ریاستِ مدینہ کئی ارتقائی مراحل سے گزر کر تشکیل پائی۔ نبی کریمؐ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، تو چار بڑے گروہوں سے آپؐ کا واسطہ پڑا۔ ایک اہلِ ایمان جو تاریخ میں انصار کہلائے۔ دوسرے مشرکیں، تیسرے منافقین جو اصلاً مشرک تھے، مگر معاشرتی دباؤ کے تحت بظاہر اسلام قبول کیا اور دل سے ایمان نہ لائے۔ اور چوتھا گروہ یہودی قبائل جو زیادہ تر مدینہ کے نواح میں آباد تھے۔ اس لیے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے ان سب کو اعتماد میں لیا گیا۔ یہودیوں سے معاہدے کیے گئے جنہیں اجتماعی حیثیت میں "میثاقِ مدینہ” کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں ریاست اور شہریوں کے حقوق و فرائض معین کیے گئے۔
قارئین، میثاقِ مدینہ سے اہلِ عرب پہلی بار ریاست کے جدید تصور سے روشناس ہوئے اور یہ جزیرہ نما عرب میں ایک قبائلی معاشرہ سے جدید ریاست کی طرف پہلا قدم تھا۔
میثاقِ مدینہ کی حیثیت، ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کی سی تھی۔ اس کو دنیا میں پہلا "تحریری آئین” مانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں جدید ریاست کے دیگر لوازمات کا بھی تذکرہ ہے۔ ریاستِ مدینہ ابتدا ہی سے عدمِ استحکام کا شکار ہوئی اور داخلی و خارجی سطح پر مسائل نے اسے گھیر لیا۔ ہجرت کے دو سال بعد مشرکینِ مکہ، مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور بدر کے مقام پر غزوۂ بدر برپا ہوا۔ داخلی سطح پر یہودیوں نے کفارِ مکہ سے مل کر مدینہ کی ریاست کو عدم استحکام میں مبتلا کرنا چاہا، جب کہ منافقین بھی اسلامی معاشرہ میں ایسا چاہتے تھے۔ آپؐ نے 2 ہجری بمطابق 624 عیسوی سے 11 ہجری بمطابق 632 عیسوی تک 29 جنگوں میں بنفسِ نفیس حصہ لیا اور 53 جنگوں میں فوجی دستے روانہ کرکے ریاستِ مدینہ کی حفاظت و استحکام کا سامان کیا۔
آپؐ امن و استحکام کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرہ کا کام بھی تدریجاً بڑھاتے رہے۔ قدیم سماجی رسوم و رواج جو انسانی تکریم کے خلاف اور استحصالی تھے، کو ختم کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ غلامی اور سود پر مبنی معاشی استحصالی رواج، شراب نوشی اور جوے کو بتدریج ختم کرکے معاشرہ کے اصلاحی معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش ہوتی رہی، جب کہ فتحِ مکہ، ریاستِ مدینہ کی تکمیل تھی۔
آپؐ والیوں (گورنروں) کو نصیحت کرکے مطمئن نہیں ہوتے تھے، بلکہ ان پر کڑی نظر بھی رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں محکمۂ احتساب ایک مستقل محکمے کی صورت میں قائم نہیں ہوا تھا۔ تاہم آپؐ خود احتساب کے فرائض سرانجام دیتے اور سختی کے ساتھ والیوں کے معاملات کی نگرانی فرماتے۔
برسبیلِ تذکرہ، ایک بار ایک عامل (ریاستی اہلکار) کو صدقہ کے مال وصول کرنے پر مامور فرمایا۔ جب وہ خدمت کو سرانجام دے کے گھر واپس آئے، تو آپؐ نے ان کے اموال کا جائزہ لیا۔ عامل نے کہا کہ یہ مال مسلمانوں کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: "تو گھر بیٹھے بیٹھے تم کو یہ ہدیہ کیوں نہ ملا؟” اس کے بعد آپؐ نے ایک عام خطبہ دیا جس میں اس چیز کی سختی سے ممانعت فرمائی۔ یہی محکمۂ احتساب آگے چل کر زیادہ منظم صورت میں سامنے آیا۔
قارئین، حضرت ابوبکرؓ طبیعت کے لحاظ سے بہت نرم دل اور شفیق انسان تھے، تاہم خلافت کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں کسی غفلت یا تساہل کو روا نہ رکھتے تھے۔ عاملوں اور عہدیداروں کی پوری نگرانی فرماتے تھے۔ جہاں کہیں کوتاہی نظر آتی، پوری طرح سرزنش کرتے اور فرائض و ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے میں کسی کی شخصیت یا عہدے کالحاظ نہ رکھتے تھے۔
حضرت عمرؓ جس طرح عہدیداروں کی تقرری میں محتاط تھے، اسی طرح عاملوں اور حکام کی تعیناتی کے بعد ان پر کڑی نگاہ بھی رکھتے تھے۔ آپؓ اپنے عہدیداروں سے یہ حلف لیتے تھے کہ کوئی ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، باریک کپڑے نہیں پہنے گا، چِھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا، اپنے دروازے پر دربان نہیں رکھے گا اور اہلِ حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ اس کے ساتھ ہی عہدہ سنبھالنے سے پہلے اس کے مال و اسباب کی فہرست تیار کراکے محفوظ کروالیتے تھے۔ حج کے موقع پر عام اعلان کیا جاتا تھا کہ کسی کو اگر اپنے علاقے کے عامل سے شکایت ہو، تو خلفیہ کے دربار میں پیش کرے۔ شکایت آنے پر پوری تحقیق کی جاتی اور اس کے ازالے کے احکامات جاری کیے جاتے۔
عصرِ حاضر میں "ریاستِ مدینہ” کا مطلب ہے کہ ایسی آزاد مملکت جس میں کوئی نسلی اور مذہبی امیتاز نہ ہو۔ قانون امیر و غریب، مسلمان، اقلیتی مذاہب والوں، حکمران اور عام آدمی کے لیے ایک جیسا ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیرِاعظم پاکستان عمران خان بار بار پاکستان کو "ریاستِ مدینہ” بنانے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ہیں، لیکن عام آدمی کے دل میں خدشہ ہے کہ کیا وزیرِاعظم عمران خان ایک ایسی صورت میں ریاستِ مدینہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جہاں امیر و غریب سب کے لیے ایک ہی نظام ہوگا، اور جہاں حاکمِ وقت کی بھی پوچھ گچھ ہوگی؟ انہیں یہ خدشہ اس لیے ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کے سنگ میں ندیم افضل چن، نذر محمد گوندل، شفقت محمود، شاہ محمود قریشی، بابر اعوان، فواد چوہدری، جہانگیر ترین، غلام سرور، چوہدری سرور اور عامر لیاقت جیسے اور ڈھیر سے بندے ہوں، اکنامِک کوآرڈی نیشن کمیٹی میں مبینہ طور ایک قادیانی کو شامل کیا گیا ہو، بنی گالہ کے عالی شان محل میں عمران خان کی رہائش، بنی گالہ سے وزیرِاعظم ہاؤس تک ایک کتے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر کا استعمال ہو (لوگوں کے اعتراض پر اب کتے کے لیے "سرکاری ڈالا” استعمال کیا جا رہا ہے) اسلامی فلاحی ریاست میں اس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی ڈاکو، قاتل اور منی لانڈرنگ کرنے والے کو ساتھ ملا کر کس برتے پر ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھنے کی بات کرسکتا ہے۔ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بن جانے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن ہم پاکستانی اتنی عجلت میں ہیں کہ کوئی انہونی ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، کسی معجزے کے منتظر ہیں یا کسی اَلہ دین کے چراغ کے اور یا پھر "کن فیکون” کے منتظر ہیں، مگر یہ عجلت ہم نے پہلے کیوں نہ دکھائی؟
اگر پہلے اتنی پُھرتی دکھائی ہوتی، تو شائد آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا اور نہ "نئے پاکستان” کی بات ہی ہوتی۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔