الفاظ بننے کا دل چسپ قصہ

Blogger Shahid Sattar Shibli

تحریر: شاہد ستار شبلی 
الفاظ کیسے بنتے ہیں؟ یہ بھی ایک دل چسپ قصہ ہے۔ مثلاً: لفظ ’’اچکا‘‘ ہی کو لے لیں۔ اِس سے مُراد ہے ایسا شخص جو کسی پڑی ہوئی چیز کو اُچَک کر بھاگ جائے۔ جیسے چیل، چوزے کو اُچَک کر لے جاتی ہے۔
اب تلوار کو عموماً شمشیر ( شَم+شی+ر ) بولا جاتا ہے۔ حالاں کہ سبھی جانتے ہیں کہ شِیر فارسی میں دُودھ کو کہتے ہیں، تبھی تو دُودھ پیتے بچے کو شِیر خوار بچہ کہا جاتا ہے۔ ( ویسے اِس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ایسا بچہ جو دُودھ کے لیے پہلے خوار ہوتا ہے، پِھر اُسے دُودھ مِلتا ہے۔) بھئی، بات یہ ہے کہ شَم فارسی میں کہتے ہیں پنجے/ ناخن کو اور شیر ظاہر ہے ایک دَرِندے کو کہتے ہیں۔ تو شیر کے پنجے کی صِفت ؛ کہ جہاں پڑے ، چِیر / اُدھیڑ/ کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔ یہی صفت تلوار میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اِسے یہ نام ’’شمشیر‘‘ ( شیر کا پنجہ ) بھی دے دِیا گیا۔
اِسی طرح کسی نے خرگوش کو نام دینے کا سوچا ہوگا، تو اُسے خیال آیا ہوگا کہ یہ ننھا سا پیارا سا جانور ہے، اس کے کان بڑے بڑے ہیں اور کسی حد تک گدھے کے کانوں سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ پس اُس نے اِس جانور کا نام رکھ ڈالا ’’خرگوش‘‘ (خر یعنی گدھا، گوش یعنی کان) یعنی فارسی الفاظ کا مطلب ہوا گدھے کے کان یا گدھے جیسے کانوں والا۔
اس طرح لفظ ’’گنوار‘‘ نکلا ہے گاؤں سے۔ یعنی گاؤں کا رہنے والا۔ اب چوں کہ گاؤں کے باشندے شہری طور اطوار نہیں جانتے، اِس لیے اُنھیں گنوار کہا گیا۔
قدیم ہِندی راجہ ’’بھرت‘‘ کا نام، ماخذ ہے لَفظ ’’بھارت‘‘ کا۔ اُسی راجہ کے پہلوٹی کے بیٹے ’’کور‘‘ کے نام سے ترکیب نکلی ’’کور چشم‘‘ کیوں کہ راجہ کور پیدایشی نابینا تھا۔
ایک لفظ ہے ’’بَن مانس‘‘۔ یہ نام بڑے قد کی بندر نما مخلوق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب ’’بَن‘‘ تو ہوا جنگل (بنگال کا گھنا جنگل سندر بَن)، اور مانَس ہوا باشندہ۔ تو بَن مانس کا مطلب ہوا جنگل کا باشندہ۔ اب لفظ ’’مانس‘‘ ہی کو لے لیں۔ یہ لفظ ہِندی لفظ ’’منش‘‘ کی جدید صورت ہے اور اس کا مطلب باشندہ کے علاوہ ’’انسان‘‘ بھی ہے۔ لہٰذا یہ ’’بَن مانَس‘‘ کے علاوہ ’’بَھلا مانَس‘‘ کا بھی حصہ ہے۔
آج سے کوئی 20 برس قبل ایک فلم آئی تھی۔ بہت سوں نے دیکھی بھی ہوگی۔ فلم کا نام ہے ’’دِل والے دُلہنیا لے جائیں گے‘‘۔اس فلم میں ہیروئین کاجل کا نام تھا ’’سمرن‘‘۔ یہ ہندی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے: ’’پھولوں کا ہار‘‘۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
شاکر، متشکر یا مشکور؟ 
دلہن یا دلھن؟  
اکھاڑہ یا اکھاڑا؟  
آسامی یا اسامی؟ 
معیاد یا میعاد؟  
اِسی طرح ایک اور ہندی فلم تھی ’’دھائے اکشر پریم کے‘‘۔ خیر ہمارے ہاں تو اِس کا نام ’’ڈھائی اکشر پریم کے‘‘ بنا دیا گیا تھا۔ اب دھائے ہِندی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’دو‘‘ اور اکشر بھی ہندی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’لفظ‘‘ یا ’’بول‘‘۔ تو اب فلم کا نام ہوا ’’دو بول پیار کے‘‘۔ اب انگریزی میں جسے "Word” کہتے ہیں ، اُردو میں ’’لفظ‘‘ تو ہندی میں ’’اکشر‘‘۔ تو یہاں یہ دھیان رہے کہ پنجابی میں لفظ ’’اَکَھّر‘‘ بھی یہی معنی رکھتا ہے۔
اِسی طرح ایک اردو محاورہ ہے ’’تیا پانچہ کرنا‘‘۔ ہندوؤں میں کسی مرنے والے کے تیسرے دِن کی رسوم کو ’’تیجا‘‘ یا ’’تَیّا‘‘ اور پانچویں دِن کی رسوم کو ’’پانچہ‘‘کہتے ہیں۔ پس جب کسی کام کا خاتمہ کرنا ہو، اُسے سمیٹنا یا لپیٹنا ہو، تو کہتے ہیں ’’اُس کا تیا پانچہ کر ڈالا‘‘۔
یہ عمل زِندہ زبانوں میں مُسَلسَل جاری رہتا ہے۔ جیسے SMS (Short Message Service) یعنی مختصر پیغام۔ اب اس کے لیے خاکسار نے لفظ گھڑا ہے ’’پیمچہ‘‘۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ پیغام یا پیغام کا مختصر یہی ہوگا۔ بہ وزنِ کتاب سے کتابچہ اور قدم سے قدمچہ ، صندوق صندوقچہ۔ پھر آج کل فیس بک کا بہت چلن ہے، تو اس کا ترجمہ جو اس ناچیز کو سوجھا، وہ ہے؛ ’’کتابِ رُخ‘‘۔ یار لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا ترجمہ اگر ’’کتابی چہرہ‘‘ کیا جائے، تو مضحکہ خیز ہوگا۔ پس اس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ میرے ایسے دوستوں کی مشکل حل ہوگئی ہے۔ اب اِس لفظ کو رواج ملتا ہے یا نہیں؟ یہ اللہ کو معلوم ہے۔
پھر "Personification اور Apostrophe” کے لیے بھی الفاظ ’’تبشِیر اور تخطیب‘‘ اس ہیچ مداں کو مناسب معلوم ہوئے۔ کیوں کہ ان تراکیب میں کسی غیر انسانی خیال یا مخلوق کو ادبی ضرورت کے تحت بشر بنا دِیا جاتا ہے اور "Onomatopoeia” کا تعلق ایسے الفاظ کی تشکیل سے ہے، جو اُن آوازوں کی نقل ہوں، جنھیں یہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے لیے ’’صوتیہ‘‘ یوں ٹھیک لگا کہ فارسی میں صوت آواز کو کہتے ہیں اور اردو کا حصہ بھی ہونے کی وجہ سے لفظ ’’صوت‘‘ ہمارے لیے بھی اجنبی نہیں۔ اس سے لفظ ’’صوتیہ‘‘ گھڑنا کُچھ ایسا نا مناسب نہیں لگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے