عام طور پر ’’اسامی‘‘ (عربی، اسمِ مونث) کا اِملا ’’آسامی‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘ اور ’’فرہنگِ تلفّظ‘‘ کے مطابق درست اِملا ’’اسامی‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’اسم کی جمع‘‘، ’’کاشت کار‘‘، ’’ملازمت کے لیے خالی جگہ‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
صاحبِ نور نے تو باقاعدہ طور پر ان الفاظ میں صراحت فرمائی ہے: ’’جو لوگ الفِ مقصورہ کی جگہ الفِ ممدودہ اور سین کی جگہ ثائے مثلثہ یعنی آثامی کو صحیح جانتے ہیں، اُن کی غلطی ہے۔ اُردو میں بجائے واحد مستعمل ہے۔ اسی وجہ سے اس کی جمع اسامیاں لاتے ہیں۔‘‘
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ میں گوکہ ’’آسامی‘‘ رقم ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی رقم ہے: (صحیح، اسامی)
نیز صاحبِ آصفیہ نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ ’’اُردو میں بجائے مفرد بغیر مد (اسامی) مستعمل ہے۔‘‘
ڈاکٹر روف پاریکھ نے ایک جگہ اس پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے: ’’آسامی ایک اور معنی میں آسکتا ہے اور وہ معنی ہیں: ریاستِ آسام (ہندوستان) کا باشندہ یا آسام کی زبان، نیز آسام سے متعلق یا منسوب۔‘‘
صاحبِ نور نے حضرتِ مسرورؔ کا ذیل میں دیا جانے والا شعر حوالتاً درج کرکے گویا ’’اسامی‘‘ پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے، شعر ملاحظہ ہو:
باقی داروں میں سب سے نامی ہے
یہ بڑی نادہند اسامی ہے