ہمارے ملک میں بے شمار سماجی برائیاں جنم لے چکی ہیں اور ان میں سے ہم نے کچھ کی نشان دہی اپنی گذشتہ تحریر میں کہ جو رمضان کے حوالے سے تھی، کی بھی ہے…… مگر، اگر آپ ہمارے یعنی پاکستانی معاشرے کا باریک بینی سے جائزہ لیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارا ملک جرائم اور گناہوں کا ایک جزیرہ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ ہے کہ جہاں انسانی ضمیر شاید مردہ حالت میں ہے اور گناہوں یا جرائم کا ادراک یا رکاوٹ تو دور ہم میں احساس تک نہیں۔
سید فیاض حیسن گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
مثلاً: میں پوری ذمے ذاری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں زنا یا بدکرداری کے علاوہ کسی اور غلطی، گناہ یا جرم کو گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا…… اور لوگ اس خامی سے ہمیشہ صرفِ نظر کرتے ہیں، خاص کر اگر کرنے والا بااثر ہو تو…… یعنی آپ ارد گرد نظر دوڑائیں، تو آپ کو نظر آئے گا کہ یہاں ہمارے سامنے کتنے لوگ راشی اور ذخیرہ اندوز ہیں، سرکاری راستوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں، سگی بہنوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرچکے ہیں، منشیات فروش ہیں، کرپٹ سرکاری اہل کاروں کے ٹاؤٹ ہیں، لیکن چوں کہ اُن کی مالی و معاشی حیثیت بہتر ہے، وہ ایک خاص قسم کا سیاسی و سماجی مقام رکھتے ہیں، اس وجہ سے معاشرہ بالکل خاموش رہتا ہے۔
بہ ہرحال گذشتہ کالم کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج ہم کچھ اور اہم سماجی برائیوں کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں۔ معاشرے کے یہی اجتماعی بے حس اور میرٹ کے خلاف رویہ افراد کو بھوک مٹانے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جو روایتی جرائم ہیں جیسے چوری چکاری، رشوت، ڈاکا زنی، اِغوا برائے تاوان وغیرہ وہ تو ہیں، لیکن اب تو بھیک مانگنے اور فراڈ کرنے کے بھی نت نئے طریقے بن گئے ہیں، جن کو جان کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح لوگ مظلوم بن کر آپ کی جیب کاٹ لیتے ہیں، یا کس طرح آپ یا آپ کے کسی عزیز کے ہم درد بن کر آپ کو لاکھوں کا نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اگر ان کے طریقۂ کار پر لکھا جائے، تو ایسے واقعات کی ایک کتاب مرتب کی جا سکتی ہے…… لیکن کالم کی تنگ دامنی اور وقت کی کمی کی وجہ سے آج ہم صرف اس حلقے بارے بات کریں گے جو فراڈ سرِ عام کرتا ہے اور عوام کو احمق بناتا ہے۔ اس کو اس فراڈ پر کسی قسم کی دقت ہے نہ دشواری۔ یہ طبقہ کون سا ہے؟ اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے درجِ ذیل دو واقعات پڑھ لیں پھر شاید مزید وضاحت کی ضرورت ہی نہ رہے۔
مَیں گذشتہ کافی عرصہ سے اسلام آباد ایکسپریس سڑک جو روات سے فیض آباد آتی ہے اور پھر آگے اسلام آباد جاتی ہے، پر سفر کرتا ہوں۔ یہاں میں اکثر و بیشتر ایک نوجوان کو دیکھتا ہوں جو پبلک ٹرانسپورٹ میں بہت خوب صورت انداز میں آیاتِ قرانی پڑھتا ہے۔ پھر ایک رسید بک سامنے کرتا اور کائنات کی ایک مقدس ترین ہستی کے نام پر بن رہے یا بننے والے مدرسے اور مسجد کا تعارف کرواتا ہے۔ اُس کے بعد وہ اُس کی تعمیر میں حصہ لینے والوں کے لیے بے حساب ثواب کا حصول احادیث و روایات سے ثابت کرتا ہے۔ یہی وہ جذباتی کلمات ہوتے ہیں کہ جن کے بعد اس کو کچھ لوگ ہدیہ کے طور پر کچھ تھوڑی بہت رقم پیش کر دیتے ہیں۔ مَیں نے آج تک اُس نوجوان کو کسی شخص یا محترمہ کو کوئی رسید دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اَب مَیں نہیں جانتا کہ وہ مذکورہ مسجد یا مدرسہ بن بھی رہا ہے یا نہیں…… یا کب تک بن جائے گا……؟لیکن عمومی طور پر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شمالی پنجاب، کراچی وغیرہ میں کوئی ایک دنیا دار مولوی صاحب ایک مدرسہ شروع کرتے ہیں اور اس کے اکثر طالب علم جنوبی پنجاب اور فاٹا کے غریب ترین والدین کے ہوتے ہیں۔ اب یہ لوگ اُن معصوم نوجوان بچوں کو اس کام پر لگا دیتے ہیں۔ مدرسہ بنتا رہتا ہے اور علامہ صاحب کا کچن چلتا رہتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
امام مسجد کی دل کھول کر خدمت کیجیے 
رمضان اور ہمارے ناروا رویے  
ذرا اس سے بھی دل چسپ ایک اور واقعہ سنیں۔ اسی سڑک پر ایک صاحب پبلک ٹرانسپورٹ میں تشریف لاتے ہیں۔ اسی طرح چند مقدس جملے بولتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ اُنھوں نے گیارھویں شریف کا لنگر تقسیم کرنا ہے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کا، سو اس سلسلے مسلمان بہن بھائیوں مدد کرو اور اس نیک کام میں حصہ دار بن کر ثواب کماؤ۔ ایک دفعہ میں رُک نہ سکا اور اس کو کہا کہ محترم! لنگر یا ختم گیارھویں شریف کا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام، سو اگر کسی میں استعاعت ہوگی، تو وہ خود دے گا…… اور نہ ہوگی، تو یہ فرض نہیں۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ختم شریف کے لیے بسوں اور ویگنوں میں آکر تقریباً بھیک مانگیں۔
ظاہر ہے اُس شخص کو میری بات اچھی لگنا ممکن نہ تھا، سو وہ غصہ ہوگیا اور چیخ پڑا کہ مَیں کون ہوتا ہوں اعتراض کرنے والا…… اور اگر اُس کو حق نہیں امتِ مسلمہ سے لے کر ختم شریف کروائے، تو پھر مجھے اعتراض کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟
تب مَیں نے مسکرا کر لائٹ موڈ میں جواباً کہا: ’’دوست! شیخ عبدالقادر جیلانی نے!‘‘
اب وہ زیادہ جذباتی ہوگیا۔ دوسرے مسافر بہت دل چسپی سے یہ مکالمہ دیکھ اور سن رہے تھے۔ اُس نے کہا کہ ثابت کرو کہ تم جیسے گستاخِ ولی اﷲ اور کفر کے قریب شخص کو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے، تو مَیں آج ہی ختم بند کر دوں گا اور جو پاس مال ہے، وہ بھی تمھیں دے دوں گا…… اور اگر تم یہ ثابت نہ کرسکے، تو پوری بس کے سامنے معافی بھی مانگوگے اور بہ طورِ جرمانہ ایک معقول رقم میرے حوالے کروگے، تاکہ وہ اس رقم کو بھی ختم شریف میں ڈال کر ثوابِ دارین حاصل کر سکے۔
مَیں نے مسکرا کر کہا، منظور ہے! لیکن اگر تم پھر بھی میرا ثبوت نہ مانے تو……؟
وہ جلدی بولا، بس میں موجود دو تین بندے جج بنا لیتے ہیں۔ مَیں نے اس کو قبول کیا اور تین رضا کار بڑی عمر کے بہ طور جج بن گئے۔ اب اُس نے بہت جذبات سے کہا، چل بھئی! کر ثابت……! تو مَیں نے جج صاحبان کو کہا، محترم! اگر آپ کے نام سے ایک اجنبی لوگوں سے چندہ مانگے، تو آپ کو اعتراض کا حق ہے یا نہیں؟ وہ جواباً بولے، ہمیں حق ہے۔
تب وہ شخص بہت پُرجوش انداز میں بولا، اُو! تم اب بتاؤ کہ کیا تم شیخ عبدالقادر جیلانی ہو؟ میں نے جواباً کہا: نہیں۔ تو وہ قہقہہ لگا کر بولا: تے فیئر! مَیں نے اُسے کہا، دوست! خاموش، ابھی میرا مقدمہ ختم نہیں ہوا۔ مَیں پھر جج صاحبان سے مخاطب ہوا اور کہا، اگر آپ دنیا سے جا چکیں، تو تب کیا آپ کی اولاد کو یہ حق ہوگا ؟اُنھوں نے جواباً کہا کہ بالکل ہوگا۔
اب مَیں نے اپنا شناختی کارڈ نکالا اور کہا، دیکھ لو صاحبان! مَیں سید بھی ہوں اور گیلانی بھی۔ سو مجھے حق ہے کہ مَیں اس شخص پر اعتراض کروں، جو میرے جدِاعلا کا مقدس نام استعمال کرکے لوگوں سے مانگتا ہے۔
اس پر وہ شخص کچھ دیر نروس ہوا۔ پھر بولا، اُو جعلی سید، جھوٹے شخص، اگر یہ غلط ہوتا، تو شیخ صاحب خود منع کرتے۔
اس پر مَیں پھر مسکرایا اور کہا، وہی تو منع کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اس قسم کے معاملات میں بڑے خود باہر نہیں آتے، بلکہ کسی بیٹے یا پوتے کو بھیجتے ہیں۔ سو دیکھ لو، اُنھوں نے مجھے بھیج دیا۔
اس بات پر گاڑی میں قہقہہ لگا۔ مَیں نے کہا: اب بولو اور بہتر ہے کہ اب جمع شدہ رقم میرے حوالے کرو۔ نہیں تو مجبوراً مجھے بس میں موجود نوجوانوں کو شیخ صاحب کی طرف سے حکم دینا ہوگا کہ سب کچھ تم سے نکال لیں۔
یہ سن کر اس شخص کا رنگ فق ہوگیا اور بولا: اوکہ اوکہ۔ جوں ہی بس رُکی، اُس نے سیکنڈوں میں چھلانگ لگائی اور رفو چکر ہوگیا۔ سو ہمارا نکتۂ نظر یہ ہے کہ اب ہم لوگوں نے مذہب کو بھی تختۂ مشق بنا دیا ہے اور دین کے مقدس نام اور دین سے وابستہ بڑی شخصیات کا نام ہم دنیاوی فواید کے لیے بہت دلیری سے استعمال کرتے ہیں۔
اس کھلی دھوکا دہی اور فراڈ پر ملک کا قانون کیا ہے؟ مَیں نہیں جانتا۔ کیا ریاست ان عناصر کے لیے کوئی طریقہ وضع کرسکتی ہے؟ کیا ان کے خلاف قانون کا لمبا ہاتھ متحرک ہوسکتا ہے؟ اس کے علاوہ کیا شریعت اس قسم کے روزی کمانے کے طریقۂ کار کی حوصلہ شکنی کرتی ہے؟
لیکن ان تمام باتوں کے قطعِ نظر ہم سادہ سا سوال کرتے ہیں کہ ہر شخص کے اندر احساسِ انسانیت ہو، جس کو ضمیر کہتے ہیں…… اور ایک باشعور، زندہ انسان کے لیے اُس کا ضمیر سب سے بڑا جج ہوتا ہے۔ اب کیا ایک انسانی ضمیر اس حرکت کی اجازت دے سکتا ہے کہ آپ دین اﷲ کے گھر اﷲکے برگزیدہ بندوں کے مقدس نام استعمال کرکے پیسا بناتے ہیں اور پھر وہ پیسا اپنے بچوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کچھ کرے نہ کرے، کیا سول سوسائٹی اور خصوصاً ہمارے مذہبی حلقے اس پر کوئی حکمت عملی کیوں تشکیل نہیں دیتے……!
ہم تجویز کرتے ہیں کہ اس قسم کی دھوکا دہی سے عوام کو بچانے کے لیے حکومت ایک مکمل شفاف سروے کروائے۔ اس کے بعد حکومت باقاعدہ اس موضوع کے حوالے سے ایسے قوانین کا اجرا کرے کہ جس میں اس قسم کی تعمیرات کا معیار طے کیا جائے۔ مزید اس کو بنانے والوں کا بھی میرٹ اور خصوصاً مذکورہ مدرسہ جامع یا مسجد کی ضرورت کا بھی تعین کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس کے لیے چندہ جمع کرنے کا بھی کوئی اصول وضع کیا جائے۔ اس سے بہت حد تک فراڈ کیس اور دین کے نام پر بھیک جیسے مکروہ کاروبار کا خاتمہ ہوگا۔
ان تمام قوانین و منصوبہ بندی کے بعد ریاست پھر ایک مکمل اور شفاف ایکشن لے اور ایسے تمام جعلی حفاظ، جعلی ملا اور نام نہاد مبلغین کو گرفت میں لا کر نہ صرف عبرت ناک سزائیں دے، بلکہ ان پر عوام سے چندہ کے نام پر جمع کی گئی رقم کا بھی حساب لے اور سرکاری بیت المال میں جمع کروائے کہ جہاں سے اس قسم کے قانونی جائز اور مفید اداروں کی مدد کی جا سکے۔ اس سے پہلے بے شک علما کی تنظیموں، ہر مسلک کے معروف عالم دین وغیرہ سے مل کر اُن کو اعتماد میں لے کر ایک زبردست لائحۂ عمل تشکیل دیا جائے کہ پھر کسی کو اس کے خلاف کہنے کی جرات نہ ہو…… اور ریاستی اداروں کو بھی مکمل اعتماد اور حمایت حاصل ہو، تاکہ پھر کسی بھی حکمت عملی کے بہتر نتائج حاصل ہوسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔