مملکتِ خداداد پاکستان اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد، تائید اور خصوصی فضل و کرم سے عوامی جد و جہد کے نتیجے میں قائم ہوا۔ یہ واحد ملک ہے جو انگریز کی دو سو سالہ قبضے اور بالادستی اور ہندو قوم کی اکثریتی آبادی کے مخالفت و مخاصمت کے باوجود معرضِ وجود میں آیا۔ انگریزوں کی سازشوں، بددیانتیوں اور ہندو قوم کے مظالم اور فسادات کے نتیجے میں جو مسائل و مشکلات شروع میں پیدا ہوئے۔ اس قوم نے اپنی اولولعزمی، ایثار و قربانی اور اتحاد و اتفاق کی بنیاد پر ان کا سامنا کیا۔ فسادات اور ہندوؤں کے حملوں کے نتیجے میں قتلِ عام سے بچ کر آنے والے لٹے پٹے بے سر و سامان مہاجرین کی آباد کاری ایک بہت بڑا مسئلہ تھی، لیکن وسائل و ذرائع نہ ہونے کے باوجود قوم نے ایک جذبے کے تحت اس مشکل مسئلے کو حل کیا۔ زیادہ تر ادارے، دفاتر، وسائل اور اثاثے ہندوستان کے قبضے میں چلے گئے، لیکن اس ملک کے مسلمان باشندوں نے قربانی کے جذبے کے تحت نئے ادارے، دفاتر اور حکومتی ڈھانچا قائم کیا۔ پاکستان کے قیام کے لیے جدو جہد کے دوران میں بھی جو جذبۂ محرکہ کام کررہا تھا، وہ مسلمانوں کا ایمانی جذبہ تھا۔ صرف اسی ایک خواہش اور امید پر یہ جان توڑ جدو جہد کی گئی کہ ایک مسلم مملکت وجود میں آئے، جہاں اسلام کا نظامِ حیات قائم ہو اور پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کیا جائے، کہ دینِ اسلام ہی تمام انسانیت کے لیے امن و آشتی اور فلاح و کامرانی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان لوگوں نے بھی قربانیاں دیں، جن کے علاقوں کا پاکستان میں شامل ہونے کا امکان نہیں تھا۔ یہ نیا ملک سراسر اسلام کے نعرے پر اسلام کے عملی نفاذ کے لیے قائم کیا گیا، لیکن جو خواب دیکھا گیا، وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا، جو امیدیں اور آرزوئیں دلوں میں مچل رہی تھیں، وہ خاک میں مل گئیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو احسانِ عظیم فرمایا۔ ایک قوم کو اٹھانے، از سرِ نو زندہ کرنے اور عزت و قار بخشنے کے لیے ایک معجزہ فرمایا،لیکن وہ قوم جو آٹھ سو سالہ نام نہاد مسلمان بادشاہوں کے تحت غیر اسلامی اور غیر انسانی غلامی کی خوگر اور عادی ہو چکی تھی، اور جس کے نتیجے میں سات سمندر پار سے آنے والے معدودے چند انگریزوں کی غلامی خود اپنے آپ پر مسلط کی تھی، وہ بھلا ایک آزاد، خود مختار اور اسلامی مملکت کی پاسبانی اور قیادت کے شرف و عزت کے حق دار کس طرح بن سکتی تھی۔ ہزار سالہ غلامی نے ان کے اندر جو فتنے مختلف شکلوں میں پیدا کیے تھے، وہ اپنی غلامانہ ذہنیت و جبلت کی وجہ سے ان سے کیسے چھٹکارا حاصل کرسکتے تھے؟ اس وجہ سے نام کی مسلم ملت نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت پاکستان کی قدر نہیں کی، کفرانِ نعمت کیا، ناشکری اور نا فرمانی کا رویہ اختیار کیا۔ 71 سال کے دوران میں اسلام کے سوا ہر طریقہ استعمال کیا۔ اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود سوشل ازم، کمیونزم، کیپٹل ازم، لبرل ازم اور معلوم نہیں کون کون سے ’’ازموں‘‘ اور نظاموں کے نعرے لگاتے رہے۔ لیکن ان نعروں کے پیچھے جو ذہنیت موجود اور کارفرما تھی کہ دین اسلام کی پابندیاں گوارا نہیں، مادر پدر آزادی مطلوب ہے، عزت و وقار نہیں، صرف پیٹ کے لئے روٹی چاہیے، نفسانی خواہشات پر قدغن اور پابندی قبول نہیں۔ پاکستان کے قائم ہوتے ہی اسلام کا نعرہ چھوڑ کر معاشی استحکام کا نعرہ بلند کیا گیااور اسلامی نظام کے قیام کی بات مسترد کرکے ایک نیا فلسفہ اور نظریہ ایجاد کیا گیاکہ پاکستان تو ہندوؤں کی معاشی بالادستی سے نجات کے لیے حاصل کیا گیا ہے، لیکن 71 سال کے بعد اسلام نافذ ہوا اور نہ معاشی استحکام ہی حاصل ہوا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
لیکن دینِ اسلام کو نظر انداز اور پسِ پشت ڈالنے سے جو عظیم نقصان ہوا۔ اس کے نتیجے میں جو نئے نئے فتنے پیدا ہوئے، کبھی آپ نے ان کا حساب کیا کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟ اسلام ہی تو آپ کو جوڑنے، یکجا کرنے، بھائی بھائی بنانے اور آپ کے اندر اتحاو اتفاق پیدا کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ اسلام کو چھوڑنے کے نتیجے میں آپ پنجابی، پختون، سندھی اور بلوچ بن گئے۔ اسلام کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں آپ صوبائی، لسانی اور نسلی عصبیت کا شکار ہوگئے۔ اسلامی نظامِ حیات سے محرومی کے نتیجے میں آپ عدل و انصاف سے محروم ہوگئے۔ جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ختم ہو گیا۔ امیر وغریب میں بغض و حسد اور طبقاتی نفرت و عداوت پیدا ہوئی۔ ظلم اور لوٹ کھسوٹ کا نظام قائم ہوا۔ رشوت و سفارش عام ہوگئی۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام قائم ہوا۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوگیا۔ قومی دولت چند جیبوں میں چلی گئی اور قوم نانِ شبینہ کی محتاج ہو گئی۔
بظاہر بڑی بڑی بلڈنگیں، پلازے، مالز، ساز و سامان اور مال و اسباب سے بھری ہوئی مارکیٹیں لیکن احساسِ محرومی ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ عدالتوں، ایوانوں، وزارتِ عظمیٰ اور صدارتِ کبریٰ کے بڑے بڑے قصروں کے باوجود قوم مایوسی، نا امیدی اور یاس و حرماں نصیبی کا شکار ہے۔ اس لیے کہ قصرِ صدارت کا مکین بے اختیار، بے اقتدار، صرف زیب و زینت اور نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اور وزارت عظمیٰ پر فائز عملی طور پر نہ اس قوم سے تعلق رکھتا ہے، نہ اس کے مسائل جانتا ہے، اور نہ اس قوم سے کوئی ذہنی و فکری اور تہذیبی و ثقافتی تعلق رکھتا ہے۔ عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کے اونچے ایوانوں میں نہ عدل ہے اور نہ انصاف۔ عدل و انصاف کو عوام کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔ عدالت کی اونچی کرسی پر بیٹھا شخص حقیقت میں نہ قانون کو جانتا ہے اور نہ عدل و انصاف کے تقاضے سمجھتا ہے۔ کالے کوٹ والوں کے دل بھی کالے ہو گئے ہیں۔ ان کی فیس انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس نظامِ عدالت کے سامنے چالیس ہزار انصاف کے طلب گار سائل سالوں سے انتظار میں کھڑے ہوں، کیا کوئی باشعور انسان اس کو عدالت تسلیم کر سکتا ہے؟
ایوانِ بالا ہو یا ایوانِ زیریں ان کے اجلاس ان کے اندر ہونے والی تقاریر، ان کے اندر نام نہاد حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف کی رسہ کشی، الزام تراشی، گالی گلوچ، ہاتھا پائی، ناشائستہ اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال، کیا اس قوم کے اخلاق و کردار کی نمائندگی کے لیے کافی نہیں؟ آئین و دستور میں جو اصول و ضابطے درج کیے گئے ہیں، کیا ان اصولوں اور ضابطوں کو پسِ پشت ڈال کر ان کا مذاق نہیں اڑایا جا رہا؟ دستور کی پہلی دفعہ کہ اس مملکتِ خداداد میں حاکمیت اعلیٰ اللہ جل شانہ کی ہے، کیا اس دستوری اصول اور ضابطے پر عمل ہو رہا ہے؟ اس کی صرف ایک خلاف ورزی کا ذکر مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہوں کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتاب قرآن میں سودی نظام کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ کیا 71 سال سے مسلمان اکثریت کے اس ملک میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ سودی نظام کے نفاذ کے ذریعے یہ جنگ نہیں ہو رہی ہے؟ اور کیا سودی نظامِ معیشت نے ہمارے ملک کے معاشی نظام کا بھٹہ نہیں بٹھا دیا ہے؟
کیا اسی دستور میں یہ دفعات دفعہ 62,63 کے نام سے شامل نہیں کہ زانی، شرابی، خائن، بددیانت، اخلاق و شرافت سے عاری، ڈیفالٹر، نادہندہ اور چور لٹیرے قومی قیادت و سیادت کے مناصب پر فائز نہیں ہو سکتے؟ لیکن عملی صورتِ حال کیا ہے؟ اس کو سپریم کورٹ کے جج کے الفاظ میں کہ اگر ان دفعات کو لاگو اور نافذ کیا گیا، تو سراج الحق کے سوا پوری قومی قیادت نا اہل ہو جائے گی۔ کیا یہ ریمارکس جادو کی طرح سر چڑھ کر نہیں بول رہے کہ پوری قومی قیادت چوروں، رہزنوں اور اخلاق و کردار سے عاری افراد پر مشتمل ہے؟
لیکن بہرحال حقیقت کا دوسرا پہلو بھی ہے، اور یہ پہلو ذرا روشن اور امید افزا بھی ہے، کہ اکیس بائیس کروڑ افراد پر مشتمل اس قوم کے اندر ایسے پاکیزہ صفت، نیک سیرت، دیانت و امانت کے اوصاف رکھنے والے خوفِ خدا اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھنے والے نیک اور مخلص لوگ بھی ہیں، جوزکوٰۃ بھی دیتے ہیں اور پورا ٹیکس بھی۔ مخلوقِ خدا کی خدمت بھی کرتے ہیں اور صلہ و ستائش کی تمنا بھی نہیں رکھتے، جو اختیار و اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر آپے سے باہر بھی نہیں ہوتے اور خلقِ خدا کو ایذا بھی نہیں پہنچاتے۔ بڑے قیمتی انمول ہیرے جواہرات بھی اس قوم کے اندر موجود ہیں، جنہوں نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنا کر اس کو دشمن کے لیے ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ ایسے ایسے باصلاحیت اور اپنے اپنے فیلڈ میں فنی صلاحیتوں سے مالامال قومی ہیرو بھی ہیں، جنہوں نے میزائل اور دیگر ٹیکنالوجیوں میں اس ملک کو ایک الگ پہچان دی ہے۔ ایسے ایسے منتظم، رشوت و سفارش سے پاک صاف اور میرٹ کی بنیاد پر قانون کا نفاذ کرنے والے افراد بھی ہیں کہ جس ادارے اور محکمہ میں ان کو تعینات کیا جائے، دنوں ، ہفتوں میں ان کو پاک صاف کرکے ترقی اور معیار کے روشنی سے منور کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم کو کون نہیں جانتا! جب واہ آرڈیننس فیکٹری میں گئے، تو اس کو معیار کا استعارہ بنا دیا۔ سٹیل مل میں گئے، تو ہفتوں، مہینوں میں اس کا خسارہ کم کردیا۔ ایسے بہت سے افراد و اشخاص جو اس قوم کا خلاصہ اور مکھن ہیں، جن کے وجود سے یہ ملک و قوم قائم ہے۔ اور گوناگوں مسائل و مشکلات کے باوجود قوموں کی برادری میں ایک مقام رکھتا ہے، لیکن اقتدار و اختیار کی کرسیوں پر براجمان وہ خود غرض، مفاد پرست اور چالباز عناصر ان قومی خادموں اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے با صلاحیت افراد کو آگے آنے کا موقع نہیں دے رہے۔ اگر کبھی ایسا ہوا، اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس قوم پر رحم کھا کر ایسے حالات پیدا فرمائے کہ ایسے افراد اختیار و اقتدار کے مناصب تک پہنچ جائیں۔ کیوں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہیں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
پھر اِن شاء اللہ یہ قوم اپنے مقصد و نصب العین کی طرف گامزن ہوگی۔ یہ ملک دنیا کے لیے اسلامی نظریۂ حیات کا ایک ماڈل ملک بنے گا۔ دنیا اس کی روشنی سے منور ہوگی اور مخلوق پر خالق کی اتمام حجت تمام ہونے کا ذریعہ و وسیلہ بنے گا۔ وما علینا الالبلاغ!
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔