جاپان دنیا کے ان ممالک میں سر فہرست ہے، جہاں لوگوں کی اوسط عمر سو سال سے زیادہ ہے۔ اس وجہ سے یہاں کے تمام لوگ بشمول حکومت، ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ کیوں کہ ان عمر رسیدہ لوگو ں پر جاپانی حکومت کا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جاپان میں سو سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد تقریباً اسّی ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ 2016ء کی بین الاقوامی آبادی کے ڈیٹا شیٹ کے مطابق جاپان میں 65 سال سے زائد عمر والے افراد کی تعداد جاپان کی کل آبادی کے چوتھائی حصے سے بھی زیادہ ہے جب کہ 75 اور اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد تقریباً سولہ ملین تک ہے۔
جاپان اُن ممالک میں بھی سر فہرست ہے جہاں 2010ء سے آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے اور بچوں کی اوسط پیدائش میں بھی کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں چودہ سال سے کم عمر والے بچوں کی تعداد 75 سال سے زائد عمر والے افراد کے تقریباً برابر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سنہ 1985ء سے 2015ء تک جاپان میں چودہ اور اس سے کم عمر والے افراد کی تعداد میں چالیس فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ اکتیس جنوری 2014ء کو بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق (جس میں امریکی تحقیقی ادارے پیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے) ستاسی فی صد جاپانی عمر رسیدہ افراد کی آبادی میں اضافہ کو بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ جرمنی کے اشاعتی ادارے ’’ڈی ڈبلیو‘‘ کی 2015ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں پالیسی سازوں کے لیے عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ایک بڑا دردِ سر بنا ہوا ہے۔ انہیں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کیسے کام کرنے کے قابل نوجوان جاپانیوں کی مسلسل کم ہوتی ہوئی تعداد، پنشن یافتہ شہریوں کی ضرورت کو پورا کرے؟ میں جب یہاں کسی سمینار یا میٹنگ میں ہوتا ہوں، تو جاپانی اس بات کا ذکر ضرور کرتے ہیں اور حیرانی و پریشانی کے ساتھ ساتھ بے چینی کا شکار ہیں کہ عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ کہ اس پر ملک کے انتہائی زیادہ وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ کہ اس کی وجہ سے جاپان کی معیشت پر بڑا بوجھ پڑ رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ عجب ہے کہ جہاں دوسرے معاشروں میں لمبی زندگی کے خواب دیکھے جاتے ہیں، وہاں لمبی زندگی جاپان میں ناپسندیدہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ جہاں باقی دنیا میں بزرگوں کو تجربہ اور عقل کا پیکر سمجھا جاتا ہے، جاپان میں انہیں معاشروں کے لیے بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ ہم جب ان عمر رسیدہ فرشتہ نما مگر زندہ مردوں کی بے بسی دیکھ رہے تھے، تو اس وقت ایک عجیب سی کوفت سے میں مبتلا تھے۔ میں ہر بزرگ کے پاس جاتا تھا اور ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ مسکرا کر جاپانی زبان میں مجھ سے کچھ کہتا اور میں آگے بڑھتا۔ میں زندہ لاشوں کے درمیان زندگی کے جمود کو محسوس کررہا تھا۔ ان میں ہر بزرگ کے چہرے کی ہر سلوٹ اورلکیر میں ایک درد ناک کہانی اظہار کے لیے بے قرار تھی، پر ان کہانیوں کو پڑھنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ کہانیاں ، یہ درد بھرے احساسات ان فرشتہ نما لوگوں کے چہروں کی سلوٹوں پر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ میں جب ان سے ملتا تھا، تو ان کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ جنم لے کر دوسرے ہی لمحے دم توڑ جاتی۔ مگر یہ مسکراہٹ عارضی اور بناوٹی ہوتی تھی۔ یو ں لگتا تھا کہ ان کی مسکراہٹ کے پیچھے درد اور خوف چھپا تھا۔درد اُن کی تنہائی کا اور خوف اُن کی زندگی کا چراغ گُل ’’نہ‘‘ ہونے کا۔ عجیب بات ہے، یہ دنیا جہاں زیادہ ترانسان موت سے ڈرتے ہیں اور لمبی زندگی چاہتے ہیں، یہاں لمبی زندگی پانے والے یہ بزرگ موت کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا جیسے میرے آنے سے ان کے درد میں اضافہ ہوا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ مجھ میں ان کو اپنی اولاد دکھائی دی ہو۔
اس موقع پر ’’آیاکو‘‘ بھی میرے ساتھ تھی، مگر یہاں میں نسوانیت اور پیار بھرے لمحات بھول چکا تھا۔ وہ بھی ان بزرگ افراد کو دیکھ کر افسردہ سی لگ رہی تھی۔

جاپان کی مشہور مصنفہ’ ’ہشیداہ شیگاکو‘‘ جس کی عمر نوے برس سے تجاوز کر گئی ہے، کے ڈراموں نے جاپان کے ٹی وی چینل ’’این ایچ کے‘‘ پر راج کیا ہے اور اس کا ’’اوشین‘‘ نامی ڈرامہ سیریل تو پوری دنیا میں مشہور ہوا ہے، مگر بڑھاپے کی تنہائی اور بے کاری نے انہیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے لیے ’’یوتینزیا‘‘ (Eutanasia) یعنی ’’سہل یا بنا کسی تکلیف کی موت‘‘ کو ترجیح دے گی۔ یوتینیزیا خودکشی کی ایک قسم ہے جس میں ایک انسان اپنی زندگی کو ایسے طریقے سے ختم کرتا ہے کہ اس میں اُسے بالکل تکلیف نہیں ہوتی۔ اس طرح کی موت ان مریضوں یا عمر رسیدہ لوگوں کو دی جاتی ہے جو لاعلاج بیماری کی اذیت یا نہ ختم ہونے والے بڑھاپے سے چھٹکارا چاہتے ہوں۔ یوتینیزیا امریکہ کی بیشتر ریاستوں سمیت ہالینڈ، بلجیم، لکزمبرگ، سویٹزر لینڈ اور کنیڈا میں قانونی طور پر جائز ہے جب کہ دنیا کے باقی تمام ممالک میں یہ غیر قانونی ہے۔
ہم نے یہاں دن گزارا۔ یہاں کھانا کھا یا۔ باجماعت تصویر لی اور واپس ہوئے۔ میں جب ٹرین کی سیٹ پر بیٹھ گیا، تو جاپان کی عمررسیدہ آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی طرزِ زندگی، ان بزرگوں کے چہروں پر افسردگی اور اس ترقی یافتہ معاشرے کی بے بسی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس وقت مجھے میرے والدین کے چہرے یاد آئے۔ میں جب اپنے وطن میں ہوتا ہوں اور جس دن صبح گھر سے جاتے ہوئے یا شام کو گھر واپس لوٹتے ہوئے اپنی ماں کو اک نظر دیکھ نہیں پاتا، تو مجھے بے چینی سی ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ دہشت گردی کے دنوں میں جب میرے والد کی موت ہوئی تھی اور اس کی تدفین ہمارے بغیر ہوئی تھی، تو ہم کس بے بسی اورلاچارگی کے عالم سے گزرے تھے۔ وہ شاید میں کبھی بیان نہ کرسکوں۔ اُس درد، بے چینی اور غم نے میری راتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں، میں اندر ہی اندر کسی کھوکھلے درخت کی طرح خود کو محسوس کرتاتھا۔ میں آج بھی اس دن سے پنا ہ مانگتا ہوں جس دن میں اپنی ماں کو بچھڑتے ہوئے دیکھوں۔
آیاکو نے اگلے روز صبح کے ناشتے میں مجھ سے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ جب سے عمر رسیدہ افراد کے سنٹر سے آئی ہے، اس بات پر سوچ رہی ہے کہ ایسی زندگی سے موت کو ہی ترجیح دے اور ’’یونتینیزیا‘‘ سے موت کو گلے لگایا جائے۔ میں آیاکو کے پُرکشش چہرے پر افسردگی اور بے چینی کو بھانپ سکتا تھا، مگر آج سے تقریباً تیس سال پہلے ایسا نہیں تھا اور شائد اب بھی دیہاتی علاقوں میں یہ رواج موجود ہے۔ کبھی جاپان میں بھی طاقتور فیملی سسٹم تھا جہاں معاشرتی اقدار کا بول بالا تھا اوربزرگ عقید ت و احترام کی علامت سمجھے جاتے تھے، جو اپنے بچوں کے درمیان محبت بھری زندگی گزارتے تھے۔ یہ بزرگ اپنے بچوں، پوتوں اور نواسوں کے ساتھ کھیلتے اور پیار کرتے اور اطمینان و سکون کے ساتھ موت کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ ان کی موت پر نہ صرف ان کے بچے ماتم کرتے تھے بلکہ پڑوسی اور رشتہ دار بھی غم میں شریک ہوتے تھے۔ جاپانی معاشرے کا ایک اور عجیب رُخ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ عجیب مذہبی گرداب میں ہیں۔ جب ان کے بچے پیدا ہوتے ہیں، تو والدین شینٹو شرائن میں عبادت کے لیے جاتے ہیں۔ نوجوان شینٹو شرائن میں دعائیں مانگتے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر جاپانی شادیاں عیسائی مذہب کے تحت کرتے ہیں اور جب مرتے ہیں، تو اپنے مردوں کی آخری رسومات بدھ مت عقائد کے تحت ادا کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔