وادئی سوات دریائے سوات اور اُس کے معاونین کے نکاس کا علاقہ ہے۔ اس میں زرخیز سیلابی مٹی کی پہاڑی ہموار سطحوں کے سلسلے ہیں جو اَب بھی وسیع پیمانے پر کاشت کیے جاتے ہیں۔ یہ اپنے گھنے جنگلوں اور مختلف النوع پھولوں اور پھلوں کی فصلوں کے لیے مشہورہے۔ چاول، گندم، مکئی، جو، دالیں، سرسوں، گنا اور مسور یہاں کی بڑی فصلیں رہے ہیں۔ بہت اوپر کے علاقوں میں صرف ایک فصل ہوتی ہے جب کہ وادیِ خاص میں دو فصلیں ہوتی ہیں۔ یہ سارا کا سارا علاقہ اتنا زرخیز ہے کہ اچھی فصلوں کے حصول کے لیے کوئی زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی۔ لوگوں کی عام خوراک چاول، گندم اور مکئی ہے۔ چاول سے یہاں کے لوگوں کی رغبت کا اظہار اس مشہورقول سے بخوبی ہوجاتا ہے: ’’د سوات خلق زاڑہ شو خو پہ وریژو ماڑہ نہ شو۔‘‘ یعنی سوات کے لوگ بوڑھے ہوگئے لیکن چاول کھانے سے سیری نصیب نہیں ہوئی۔
جڑی بوٹیاں اور جھاڑیاں کثیر تعداد میں اُگتی ہیں۔ عام طورپر جو درخت یہاں پائے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں چنار، سفیدا، بید، تُوت، سرس، پیستو، بکائن، کیکر، زیتون اور عناب اور بلندی پر اخروٹ اور املوک۔ پھل دار درختوں میں سیب، بہی، آڑو، ناشپاتی، اخروٹ اور املوک بہت عام ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ درختوں کی نئی اقسام پرانی اقسام کی جگہ لے رہی ہیں۔ سوات کے پہاڑ چیڑاور دیودار کے جنگلات کے لیے مشہور رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں شہدپیدا ہوتا ہے۔ یہاں کا شہد معیار اور مقدار دونوں لحاظ سے نمایاں حیثیت کا حامل گردانا جاتا ہے۔
پالتو جانوروں میں گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ عام طورپر پائے جاتے ہیں۔ معاشرہ کے چند خاص طبقے جیسے گوجر، اجڑ اورگڈریا اپنی روزی کمانے کے لیے انہی پر انحصار کرتے ہیں۔ گھی، مکھن اور دودھ ہر طرف دستیاب ہے۔ سوات میں ان چیزوں کی پیداوار اپنی ضروریات سے زیادہ تھی، اس لیے ان کو برآمد کیا جاتا تھا۔
خوشحال خان خٹک نے سترھویں صدی میں پانی اور فصلوں کی فراوانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’گاؤں کے ہر گھر تک چھوٹی ندیوں کا پانی پہنچتا ہے۔ پانی کی اس بہتات کی وجہ سے فصلیں اچھی ہوتی ہیں اور غلہ ضرورت سے زیادہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اُسے ہر جانب برآمد کیا جاتا ہے۔ ‘‘
ہندوستان کے برطانوی حکام نے 1880ء اور 1890ء کی دہائیوں میں تیار کردہ ایک خفیہ ریکارڈ میں سوات کی آب و ہوا کو دیگر یوسف زئی میدانی علاقوں سے مختلف بتایا ہے۔ گرم موسم یہاں اُن سے دیر میں شروع ہوتا ہے لیکن زیادہ مسلسل اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ہرطرف کھڑے پہاڑوں کی وجہ سے ہوا آزادی سے گذر نہیں سکتی۔ پہاڑوں میں بہ کثرت آنے والے طوفان فضا کو ٹھنڈا نہیں کرتے بلکہ نیچے کی وادیوں میں گرم پھنکارتی ہواکا سبب بنتے ہیں۔ حد درجہ کمزور کردینے والا ملیریا عام تھا۔ اسی طرح کے اور بھی خوفناک ملیریا بخار تھے جس کے لیے یہ علاقہ بدنام تھا۔ موسمِ سرما نیچے کے میدانی علاقوں کے مقابلہ میں کم سخت ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہوا نہیں چلتی۔ ہر طرف کھڑے برف پوش پہاڑ اُس کی راہ مسدودکردیتے ہیں اور پالا بھی زیادہ نہیں پڑتا۔ یہاں کے کم بلند علاقوں میں ہر سال برف نہیں گرتی۔ عموماً تین چار سال کے وقفہ کے بعد برف پڑتی ہے لیکن وہ حتمی نہیں ہے۔ سوات میں باالعموم موسمِ سرما شدید نہیں ہوتا، لیکن لمبا ہوتاہے۔ میدانی علاقہ کے مقابلہ میں یہاں آب و ہوا میں حبس زیادہ ہوتا ہے۔ہیون سانگ یہاں کے موسم کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’یہاں گرمی اور سردی قابل برداشت ہیں، ہوا اور بارشیں موسم کے مطابق آتی ہیں۔‘‘
خوشحال خان خٹک (جو یہاں کے باشندوں کے لیے کوئی نرم گوشتہ نہیں رکھتا تھا) یہاں کی مٹی کی زرخیزی، قدرتی حسن، سر سبز وشاداب چراگاہوں اور ہوا کے فرحت بخش جھونکوں کی تعریف کرتاہے اور سوات کو کابل اور کشمیر سے تشبیہ دیتا ہے۔ (کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ تیس؍ اکتیس سے انتخاب)