اُن کی بنائی ہوئی مشین صرف چند سیکنڈ ہی ہوا میں اُڑ سکی۔ اس واقعے نے ’’رائٹ برادران‘‘ کو اتنا دل برداشتہ کر دیا کہ انہوں نے اُڑنے کا خواب ہی چھوڑ دیا اور عہد کرلیا کہ آئندہ اُڑنے والی مشین پر کام نہیں کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ انسان اگلے ہزار سال تک اُڑ نہیں سکے گا۔
قارئین! اسی اثنا میں ان کی ملاقات اُڑن مشینوں کی ترقی پر کتاب لکھنے والے ’’اکٹو چیتوٹ‘‘ سے ہوتی ہے۔ وہ ان سے کہتا ہے کہ آپ لوگوں کی بنائی ہوئی مشین انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ اُڑنے والی مشین ہے۔ آپ تاریخ رقم کرنے کے کافی قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ’’رائٹ برادران‘‘ کو شکاگو یونیورسٹی میں لیکچر دینے کی دعوت دیتا ہے۔
یہ مختصر ملاقات’’رائٹ برادران‘‘ کے حوصلوں کو نئی زندگی دیتی ہے اور باقی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ’’رائٹ برادران‘‘ نے انسان کی ہوا میں اڑنے کی صدیوں پرانی خواہش کو عملی جامہ پہنا دیا۔
دوسری کہانی انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ایجادات کرنے والے اور برقی قمقمے (بلب) کے مؤجد تھامس ایڈیسن کی ہے جس نے 1875ء میں ایک کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ ایک ایسی مشین ایجاد کرنے والا ہے جو بِنا تار کے آواز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکے گی۔
پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں نے اس کا خوب مذاق اُڑایا۔ اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے ایک صحافی نے اسے کہا کہ ’’آئندہ ایسی فضول باتوں کے لیے ہمیں نہ بلانا۔‘‘
اس چھوٹے سے ناخوش گوار واقعے نے ریڈیو کی ایجاد کو 30 سال کے لیے مؤخر کر دیا۔
قارئین! ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بے جا تنقید جب 2200 ایجادات کے پیٹنٹ سائنس دان ’’تھامس ایڈیسن‘‘ کے حوصلے کو روند سکتی ہے، تو ایک بچے کے اعتماد کو کتنے خطرناک حد تک کم کرتی ہوگی!
بے جا تنقید بچے کی شخصیت کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تنقید بچے کے اعتماد کو کم کر دیتی ہے۔ یہ بد اعتمادی اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ پھر وہ دوسرے لوگوں کے سامنے بول نہیں پاتا۔ اس کے اندر ایک خوف ہوتا ہے کہ ’’اگر میں بولوں گا، تو لوگ ہنسیں گے۔‘‘ یہی دراصل وہی بے جا طنز اور تنقید کا نتیجہ ہوتا ہے جو بچپن میں کبھی ہم نے اس کے ہر کام پر کی ہوتی ہے۔
بچوں کی لکھت پڑھت، کھیل کود، کھانے پینے اور اُٹھنے بیٹھنے غرض ہر چیز میں تنقید اس کی شخصیت کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس کی سوچ کو محدود کر دیتی ہے۔ اس کی قوتِ فیصلہ کو متاثر کر دیتی ہے۔ یہی شخصیت زندگی کے کئی مراحل میں اسے پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔
قارئین، تنقیدی ماحول میں پلنے والا بچہ پروفیشنل زندگی میں بہت سے مواقع میں اپنے خود اعتمادی میں کمی کے باعث پیچھے رہ جاتا ہے۔ وہ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ ہم نے بچپن میں اسے یقین دلایا ہوتا ہے کہ وہ جو بھی کرے گا غلط کرے گا۔ ہر چیز میں ہم نے اپنا فیصلہ مسلط کیا ہوا ہوتا ہے۔ دراصل یہ ہم ہی ہوتے ہیں جنہوں نے بچپن ہی میں اپنے بچوں سے اظہارِ رائے اور فیصلے کی قوت چھین لی ہوتی ہے۔
قارئین، اپنے بچوں کو اظہارِ رائے کی اجازت دیجیے۔ ساتھ انہیں فیصلے کی اجازت بھی دیجیے۔
برسبیلِ تذکرہ ’’فرینک اے کلارک‘‘ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’تنقید بارش کے نرم قطروں کی طرح ہونی چاہیے جس کی بدولت کسی شخص کی نشو و نما ہوسکے، ایسا نہ ہو کہ یہ اُس کی بنیادوں کو ہلا دے۔‘‘
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بے جا تنقید کو غیر ضروری لاڈ پیار میں بدل دیا جائے۔ کیوں کہ بے جا لاڈ پیار اور ضرورت سے زیادہ آزادی، بچے کی ہر چھوٹی بڑی ضد کو پورا کرنا اور فضول باتوں پر نہ ٹوکنا بھی بچوں کی شخصیت کو ایسا بگاڑ دیتی ہے کہ آگے جا کر وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اوروں کے لیے بھی خطرناک انسان بن جاتا ہے۔
بچوں پر تنقید اور غصہ کیسے کیا جائے؟ اس پر اگلی نشست میں بات ہوگی!
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔