آخرِکار پی ٹی آئی کے اُمیدواروں نے میدان مار ہی لیا…… اور وہ بھی واضح اکثریت سے۔ حالاں کہ اُنھیں دبانے کی، مارنے کی، گرفتار کرنے کی، ذہنی اور جسمانی اذیتیں دینے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ الیکشن کے آخر میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا سے ہرانے کی کوشش بھی کی گئی، لیکن اس کے باوجود عوام باہر نکلی اور اپنے ووٹ کی طاقت سے بتادیا کہ اُنھیں کپتان کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔
خیبر پختونخوا کے لوگوں نے اپنی جرات اور بہادری کو ثابت کردیا اور ووٹوں پر ڈاکا ڈالنے والوں کو موقع نہیں دیا۔ خاص کر لوٹوں کا جو حشر کیا، وہ ان کی آنے والی نسلوں کو بھی یاد رہے گا، لیکن پنجاب اور سندھ میں جو عوام کے ووٹوں پر ڈاکے ڈالے گئے اور جس طرح کی وڈیوز منظرِ عام پر آرہی ہیں، وہ انتہائی قابلِ مذمت ہیں کہ کس طرح رزلٹ تبدیل کیے گئے؟
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
لاہور میں یاسمین راشد نے میاں نواز شریف کو ہرادیا،لیکن جادوئی چھڑی نے اُس نتیجے کو تبدیل کردیا۔ اسی طرح سیالکوٹ میں خواجہ آصف کا نتیجہ تبدیل کیا گیا۔ وہ تو اس طرح کی ہیرا پھیریوں کے ماہر ہیں اور اس بات کا اظہار ہمارے سابق سپہ سالار بھی کرچکے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں وہ ہار گئے اور پھر خواجہ صاحب نے فون کرکے اپنی ہار کو جیت میں کیسے تبدیل کروایا۔
اسی طرح پنجاب اور سندھ میں کیا گیا یہ صورتِ حال ملک کے لیے خوش گوار نہیں ہوگی، بلکہ اس سے ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ اگر اسی طرح دھاندلی کرنی تھی، تو پھر اتنے پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی…… جب کہ میاں نواز شریف صاحب نے تو پہلے ہی کَہ دیا تھا کہ ساڈی گل ہوگئی اے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری ملازمین کے ساتھ جو کیا، وہ بھی نہیں ہونا تھا۔ اس بات کا تو مَیں بھی چشم دید گواہ ہوں کہ لاہور کی ایک نکڑ سے دوسری نکڑ پر ملازمین کی ڈیوٹیاں لگائی گئی اور اوپر سے موبائل سروس بند کرکے اُنھیں پریشانیوں میں دھکیل دیا گیا۔ بسوں اور ویگنوں میں خواتین اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر پہنچیں، تو واپسی پر رات 12 بجے اُنھیں کوئی سواری بھی نہیں ملی۔ اُوپر سے یہ حکم تھا کہ کوئی بھی رزلٹ لے کر خود سے آر اُو دفتر نہیں جائے گا، بلکہ فوجی گاڑی آئے گی جو اُنھیں لے کر جائے گی۔ یوں خواتین گھر والوں سے دور بے بس رہیں، جنھوں نے رات گزارنے کے لیے لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر دستک دی، الیکشن کمیشن اگر اُن کی ڈیوٹیاں اُن کے گھر کے قریب لگا دیتا، تو اس سے کیا فرق پڑنا تھا؟ لیکن دوردراز کے علاقوں میں ڈیوٹیاں لگا کر اُنھیں بھی ذلیل وخوار کیا گیا۔ اوپر سے ووٹروں کے حقوق پر جو ڈاکا ڈالا گیا، اُسے بھی تاریخ یاد رکھے گی۔
اگر دیکھا جائے، تو پی ٹی آئی کے اُمیدواروں نے پورے ملک میں کلین سویپ کیا۔ لاہور میں نواز شریف، مریم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف، عطا تارڑ، عون چوہدری اور علیم خان کو زبردستی جتوایا گیا۔ کیوں کہ فارم 45 کے مطابق پی ٹی آئی کے اُمیدوار جیت چکے تھے، جب کہ فارم 47 میں اُنھیں ہرادیا گیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات قومی اُمنگوں کو زباں عطا کرنے میں ناکام  
انتخابی نتائج، تاخیر اور آئینی تقاضے 
قومی حکومت تشکیل دی جائے  
اس بار لوگوں کا جوش خروش بھی زیادہ تھا، جو الیکشن کے بعد بھی جاری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزاد جیتنے والے افراد پیسے کے لالچ میں پیپلز پارٹی یا ن لیگ میں شامل ہوجائیں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کیوں کہ یہ سب وہ لوگ ہیں، جو مشکل ترین وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے اور پارٹی نے اُنھیں نام زد کرتے وقت بھی ضرور دیکھا ہوگا کہ مشکل وقت میں یہ لوگ کہاں تھے؟ خاص کر میں خراجِ تحسین پیش کروں گا ڈی پی اُو ڈیرہ غازی خان احمد محی الدین کا، جنھوں نے شدید دباؤ میں بھی اپنا فرض نبھایا اور کسی بھی ایسی دونمبری کا حصہ بننے سے انکار کردیا، جس کی بدولت کسی اور کے ووٹ پر ڈاکا ڈالا جاتا۔ کاش! اسی طرح کی بہادری ہمارے دوسرے پولیس افسران بھی دکھا جاتے، تو پاکستان کی سمت درست ہوجانی تھی اور چوروں، ڈاکوؤں سے قوم کی جان بھی چھوٹ جانی تھی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔
رہی بات الیکشن نتائج تبدیل ہونے کی، تو اس حوالے سے تمام متاثرہ فریقین عدالتوں میں پہنچ چکے ہیں۔ اُمید ہے کہ دوبارہ گنتی کے دوران میں اُنھیں اُن کا حق مل جائے گا۔ اسلام آباد سے فارم 45 میں جیتنے والے سید محمد علی بھی اپنا سارا ریکارڈ لے کر عدالت کے دروازے پر دستک دینے پہنچ چکے ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں الیکشن میں دھاندلی کی تاریخ کوئی نئی نہیں، بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد ہی اس کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کو ہروایا گیا، اُس وقت عوامی شعور بھی اتنا نہیں تھا، جتنا اب ہوچکا ہے۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک انتخابات میں دھاندلی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جو دھاندلی کے اس کھیل میں ملوث ہیں، وہ بھی عوام کے سامنے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں۔
اس بار اگر پھر پی ڈی ایم طرز کی حکومت بنی تو آنے والے دور میں ہر پاکستانی اپنے کپڑے بیچنے پر مجبور ہوجائے گا۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہوجائے گا۔ غریب خودکشیاں شروع کردے گا اور بے روزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوجائے گا۔ غیر ملکی قرضہ حد سے تجاوز کرجائے گا اور ملک میں ڈیفالٹ کی بازگشت سنائی دینا شروع ہوجائے گی۔ اس لیے اب ملک کے بڑوں کو چاہیے کہ پی ڈی ایم طرز کے تجربے کو دوبارہ نہ دھرائیں۔ اُنھیں حکومت بنانے کی آزادی دی جائے جنھوں نے میدان مارا ہے۔ اگرعوامی امنگوں کے مطابق حکومت نہ بنی، تو پھر ملکی حالات خراب ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی حالات بھی خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا۔
اس وقت عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار واضح اکثریت حاصل کرچکے ہیں۔ اگر اُنھیں ڈنڈے کے زور پر ہانکنے کی کوشش کی گئی، تو عوامی ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔ کیوں کہ خیبر پختونخوا میں تو پی ٹی آئی کی حکومت بننے جارہی ہے اور وہاں کے لوگوں کا جوش و جذبہ بھی قابلِ ستایش ہے، جنھوں نے مشکل وقت میں نہ صرف پارٹی کا ساتھ دیا، بلکہ اسے الیکشن میں سرخ رُو بھی کردیا۔ ویسے تو یہی صورتِ حال پورے ملک کی تھی، فرق صرف اتنا ہے کہ خیبر پختونخوا والوں نے اپنے ووٹ پر نہ صرف پہرہ دیا، بلکہ اس کی حفاظت بھی کی…… جب کہ دوسرے صوبوں کے لوگوں نے ووٹ تو دے دیا، لیکن اس پر پہرہ نہ دے سکے، جس کی وجہ سے راتوں رات نتیجے تبدیل کردیے گئے۔
اب بھی عدالتوں سے اُمید ہے کہ وہ سب کے ساتھ پورا پورا انصاف کریں گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔