اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پی ٹی آئی نے مزاحمتی سیاست کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ اس مزاحمت میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا بھرپور کردار شامل ہے۔
قبل ازیں ایسا ہوتا تھا کہ حکومتیں اور مقتدرہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ان پر انوسٹمنٹ کیا کرتی تھیں۔ لائسنس منسوخی اور اشتہارات کی بندش کو بہ طورِ ہتھیار استعمال کرکے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اور اخبار مالکان کو جھکنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ بیبے اخباری مالکان اور میڈیا ہاؤسز پر نوازشات کی بارش کر دی جاتی اور وہ حکومت کی پروجیکشن میں لگ جاتے۔ رائے عامہ بنانے اور بگاڑنے میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا کلیدی کردار ہوا کرتا تھا۔ اب بھی یہ کردار موجود ہے، مگر اس کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ لوگوں کے پاس اخبار پڑھنے اور ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کا وقت نہیں رہا۔ اب زمانہ تیز رفتار ہو گیا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
عمران خان نے حکومت میں آ کر اپنی اور اپنی حکومت کی پروجیکشن کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دی۔ وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر چلے۔ اُنھوں نے اپنی سوشل میڈیا کی ٹیم بنائی۔ اُس ٹیم میں تنخواہ پر نوجوان بھرتی کیے اور الیکٹرانک میڈیا کے متوازی ایسا نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوگئے، جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ عمران خان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا نوجوان بعد میں رضاکارانہ طور پر اُن کی ٹیم کا حصہ بنتے چلے گئے۔ عمران خان کو اِس کا بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ حکومت سے نکلنے کے بعد اُنھیں روایتی میڈیا کی محتاجی نہ رہی۔ اُن کی میڈیا ٹیم نے آج بھی اُنھیں ’’ہیرو‘‘ اور ’’مسیحا‘‘ بنا رکھا ہے۔
عمران خان کی میڈیا ٹیم کا یہ خاصا ہے کہ اپنا پسندیدہ بیان چند ہی منٹوں میں دنیا بھر میں پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم نے پارٹی اور لیڈر پر لگائی گئی پابندیوں کا ڈَٹ کر مقابلہ کیا اور الیکشن میں حیرت انگیز نتائج حاصل کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ دوسری کسی پارٹی کے پاس ایسی شان دار اور جان دار میڈیا ٹیم نہیں۔ آج کل اُن کی میڈیا ٹیم معروف تجزیہ کار جناب مظہر عباس کا ایک بیان بڑی تیزی سے وائرل کر رہی ہے۔ پہلے آپ وہ بیان پڑھیں۔ پھر اس پر بات کرتے ہیں: ’’شرارتی نوجوانوں نے بازی پلٹ کر رکھ دی۔ کئی ایک کا خیال تھا کہ ’بلے‘ کا انتخابی نشان نہ ملنے کے بعد بائیکاٹ کی کال آئے گی اور کھیل آسان ہوجائے گا، مگر پھریوں ہوا کہ سلیکٹرز بھی دیکھتے رہ گئے اور جنھیں ’سلیکٹ‘ ہونا تھا، وہ بھی۔ الیکشن2024ء انھی شرارتی نوجوانوں کی شرارت ہے، جھگڑا کرسی کا تھا۔ شرارتی نوجوانوں کی شرارتوں کی وجہ سے نواز شریف وزراتِ عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہوگئے اور نہ بلاول ہی وزیرِ اعظم بن پائے۔ پی ٹی اے ایک ویب سائٹ بند کرتا تھا، تو دوسری تیار ہوجاتی تھی۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
قومی حکومت تشکیل دی جائے 
جمہوریت بہترین انتقام ہے 
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی 
انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل کا طریقہ کار  
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟ 
مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ جناب مظہر عباس کا یہ بیان من و عن نقل کیا گیا ہے، یا سیاق و سباق سے ہٹ کر پھیلایا جا رہا ہے، مگر اس پوسٹ سے مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا: ’’شادی کے کچھ عرصہ بعد ایک نوجوان کی ملاقات اپنے پرانے دوست سے ہوئی، تو دوست نے شادی شدہ زندگی کے بارے میں پوچھا۔ نئے شادی شدہ نوجوان نے بتایا، ’یار! آپ لوگ تو ایسے ہی مجھے شادی سے ڈراتے تھے۔ میری تو دنیا ہی جنت بن گئی ہے۔ بس ساری بات ذہانت کی ہوتی ہے۔ ہم میاں بیوی نے اپنی روزمرہ زندگی کو بہت اچھے سے مینج کرلیا ہے اور زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں۔‘دوست نے حیر سے پوچھا: ’وہ کیسے؟‘۔ ’بہت سادہ سی بات ہے۔‘ نئے شادی شدہ دوست نے بتایا۔ ’ہم نے کام آپس میں بانٹ لیے ہیں۔ مَیں صبح سویرے ناشتا تیار کر کے بیگم کو جگا کر ناشتا کرواتا ہوں۔ ناشتے کے بعد وہ سلیقے سے برتن ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ مَیں آفس کے لیے گھر سے نکلنے لگتا ہوں، تو وہ خود اُٹھ کر اندر سے دروازے کی کنڈی لگاتی ہے۔ مَیں آفس سے تھکا ہارا واپس آ کر چائے بناتا ہوں۔ اُسے بھی ایک کپ دیتا ہوں، تو وہ خوش ہو جاتی ہے۔ میری غیر موجودگی میں ایک کپ چائے بھی اُس کے حلق سے نہیں اُترتی۔ مَیں کھانا بناتا ہوں، تو کچن میں میرے پاس کھڑی رہتی ہے، تاکہ میں اکیلا بوریت محسوس نہ کروں۔ اتوار کو جب مَیں مشین لگا کر کپڑے دھوتا ہوں، تو وہ مجھے لطیفے سناتی رہتی ہے۔ میری خوشی کی خاطر روزانہ مجھ سے سر دبواتی ہے۔ جب ہم کھانا کھا لیتے ہیں، تو برتن اُٹھا کر خود کچن میں رکھ آتی ہے جنھیں مَیں دھو دیتا ہوں۔ بس اسی طرح مل جل کر ہم بانٹ کر کام کر لیتے ہیں۔زندگی میں خوشی ہی خوشی ہے۔ تم سناؤ! تمھاری زندگی کیسی گزر رہی ہے؟‘ دوسرا دوست بولا: ’گزر تو میری بھی کتوں جیسی رہی ہے، لیکن مجھے تمھاری طرح بتانا نہیں آتا۔‘‘
یہ لطیفہ اس لیے یاد آیا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکر اس بات کی خوشی منا رہے ہیں کہ بلاول بھٹو یا نواز شریف میں سے کوئی وزیرِ اعظم نہیں بن سکا۔ وہ اسے ’’شرارتی نوجوانوں‘‘ کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ وہ اسے ہی گوہرِ مقصود سمجھ کر ناز کر رہے ہیں۔ اُنھیں کون سمجھائے کہ اُن کے دونوں حریف کامیاب ہوچکے ہیں۔ نواز شریف اپنے بھائی کو ملک کا وزیرِ اعظم اور اپنی بیٹی کو سب سے بڑے صوبے کا وزیرِاعلا بنوانے کے علاوہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی میں برابری کی سطح پر حکومت میں شامل ہیں۔ اسی طرح بلاول نے اپنے باپ کو ملک کا صدر بنوا لیا ہے۔ چیئرمین سینٹ، دو صوبوں کی گورنر شپ، سندھ اور بلوچستان جیسے دو صوبوں میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ جناب مظہر عباس کے بیان کی آڑ میں پی ٹی آئی کے نوجوانوں کو ٹریپ کیا گیا ہے۔ اُن کا ’’کتھارسس‘‘ کیا جا رہا ہے اور اُن کی کامیابی پر اُنھیں مطمئن کیا جا رہا ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی طرف سے جاری کی گئی پوسٹ نہیں لگتی۔ اگر یہ آفیشل پوسٹ ہے، تو پھر واقعی آپ لوگوں کی طرح بات بتانا دوسروں کو نہیں آتا۔
ذرا غور تو کیجیے! بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف کے مقابلے میں آپ لوگوں کو کیا ملا ہے؟ بانی پارٹی سمیت مرکزی لیڈرشپ جیلوں میں پڑی ہوئی ہے۔ سانحہ 9 مئی کے گرفتار شدہ ورکر فوجی عدالتوں میں اور اُن کے لواحقین در بہ در رُل رہے ہیں۔ منتخب اراکینِ اسمبلی ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ پارٹی کا اپنا نام و نشاں ختم ہوچکا ہے۔ خیبر پختونخوا میں حکومت ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کی، مرکز میں اپوزیشن لیڈر ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کا۔ پی ٹی آئی کا پارلیمانی وجود ہی ختم ہوگیا ہے۔ پارٹی کی باقیات کو کسی دوسرے کی جھولی میں ڈال کر اور اپنی شناخت تک ختم کر کے جشن منایا جا رہا ہے کہ ہم نے بلاول یا نواز شریف کو وزیرِ اعظم نہیں بننے دیا۔
بھئی واہ! کیا بیانیہ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔