تحریر: نیلم خان افضل (اوکاڑہ)
جمیل جالبی نے ’’تاریخِ ادب اُردو‘‘ جیسی ضخیم و مستند کتاب تحریر کی جس میں مصحفیؔ کی سوانح اور اُن کے کلام خاص طور پر اُن کی غزلیہ رنگ کے انتخاب کو تفصیلاً قلم بند کیا ہے۔
جمیل جالبی، مصحفیؔ کی غزل کو تین دائروں تک محدود رکھتے ہیں جن میں معاملہ بندی، معنی بندی اور تازہ گوئی کا رنگ نمایاں ہے۔ مصحفیؔ نے ان رنگوں تک محدود رہ کر غزل کو مزید وسعت دی اور علاوہ ازیں غزلیات کے دیگر شعرا کی بھی پیروی کی۔ مصحفیؔ کی غزلیات ردیف اور قافیے میں نئے مضامین کی طرف راغب نظر آتی ہیں جن کے پڑھنے پر مانوسیت کا احساس ہوتا ہے۔ مصحفی کا اُسلوبِ کلام ایسا دل آویز ہے کہ پڑھنے والے کو اپنی روداد معلوم ہوتی ہے۔
ڈاکٹر انور سدید ’’اردو ادب کی تاریخ‘‘ میں مصحفیؔ کی غزلوں میں پژمردگی اور افسردگی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ مصحفی کے دگرگوں حالات تھے، جو وقت کی گزران کے ساتھ اُن کی ذات کا حصہ بن گئے۔لکھتے ہیں کہ مصحفیؔ کی غزلوں میں یہ دو عناصر ان کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں۔
’’مختصر تاریخِ ادبیات‘‘ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا مصحفی کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ اُن سے بے شمار کلام منسوب ہے۔ ساتھ اس کے اس بات کا رنج کرتے ہیں کہ اتنے ضخیم اُردو کلام ہونے کے باوجود اُن کوخوش کُن زندگی کے چند لمحات بھی میسر نہیں آسکے۔کاش کہ وہ اپنے جیتے جی اپنے کلام کی پذیرائی دیکھ پاتے۔ جیسے مصحفیؔ خود گوشۂ گم نامی میں رہے، ایسے ہی اُن کا کلام بھی گم نامی میں پڑا رہا جسے صدیوں بعد طباعت نصیب ہوئی، مگر مکمل کلام آج بھی نایاب ہے، لیکن اب بہت سے محققینِ اَدب اس کلام کی طباعت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
محشر لکھنوی
احمد راہی، شخصیت و فن
جون ایلیا، شخصیت و فن
مولانائے روم کی ایک مشہور غزل مع اُردو ترجمہ
’’لکھنؤ کا دبستان شاعری‘‘ میں ابواللیث صدیقی نے ’’اَوَّدھ کے بانی‘‘ بارے مضمون باندھا ہے۔ اُنھوں نے لکھنویت کی خصوصیات کی روایت میں اس کو الگ مقام عطا کیا ہے۔ جن شعرا نے پرانی طرز کو نئے انداز میں ڈھال کراور نئی راہوں کو متعین کرکے شاعری کی، اُن میں مصحفی کا مقام بلند و بالا ہے۔ مصنف نے اس پہلو کو بھی اجاگر کیا کہ لکھنوی شاعری سے پہلے دکن اور شمالی ہند کی شاعری کا دور دورہ تھا، جو رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہوگیا۔
مصحفی کی تعلیم بارے لکھتے ہیں کہ اُنھوں نے شاہجہاں آباد میں عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بقول اُن کے مصحفیؔ کا تعلیمی سفر امروہہ سے شاہجہاں آباد تک تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔لکھنوی دور میں مصحفیؔ نے عربی پر مکمل گرفت حاصل کی۔ اُن کو علمِ عروض پر اس قدر کمال حاصل تھا کہ ایک رسالہ بھی تصنیف کیا۔
قاضی عبدالودو د ایک محقق اور ناقد ہیں۔ ادبی دنیا کا ایک معتبر نام ہیں۔ ’’قاضی عبدالودود کی تحقیق نگاری‘‘ میں اُنھوں نے مصحفیؔ پر بھی تحقیق کی اور اپنی تذکروں کی تحقیق سے دُنیا کوبہت سے نئے شعرا سے متعارف کروایا۔ اُن کو تحقیق کا معلمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ قاضی نے بھی اپنے مضمون میں مصحفی پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور ان تمام خیالی تحقیقات کے ضمن میں بھی دلائل پیش کیں، جو مصحفیؔ بارے مختلف محققین نے قائم کی ہوئی تھیں۔
مولانا محمد حسین آزادؔ نے انشاؔ اور مصحفیؔ کے نزع کا واقعہ اس طرح بیان کیا کہ مصحفیؔ پر کم علم، کم فہم ہونا ظاہر ہوتا ہے، جو تمام عمر اس باعث انشاؔ کا مقابلہ نہ کر پائے اور شاگردوں کا سہارا لیتے رہے۔اس نزع میں شکستگی کا اثر اس درجہ گہرا ہوا کہ تا دمِ آخر اِس کا غم دل سے نہ گیا۔
انشاؔ کی وفات پر مصحفیؔ نے ایک قطعہ بھی لکھا، جس میں شدید غم کا اظہار کیا۔ ’’آبِ حیات‘‘ میں اس معرکہ آرائی میں کام آنے والے اس کلام کو بھی تحریر کیا گیا۔ دونوں شعرا کو ماہر فن کا درجہ بھی دیا گیا اور مصحفیؔ کے بارے میں یہ الزام لگایا کہ وہ فخرِ بے جا کا شکار تھے۔ اُن کو ملک سخنوری کی بادشاہی کا دعوا تھا۔
انشاؔ اور مصحفیؔ نزع ایک چھوٹے سے شعر سے شروع ہوئی، جو بعد میں ایک سنجیدہ صورتِ حال اختیار کرگئی۔ اس معرکے کا چرچا شہر بھر میں ہوا۔ کتابوں میں اُن واقعات کے تذکروں نے ان دونوں کی شخصیت اور زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ایک دوسرے پر ہجو لکھنا دونوں کا مقصدِ اعلا بن گیا۔ اس نزع میں شہر بھر کے لوگوں نے اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا، جن میں امرا نے خاص کر دلچسپی ظاہر کی اور اس مناقشے کو ختم کرنے کی بجائے چنگاری کو مزید ہوا دی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔