قائدِ اعظم کے بعد شاید اس موجودہ پاکستان یعنی مغربی پاکستان میں صحیح معنوں میں اگر کوئی مقبول ترین سیاسی راہنما ہوا ہے، تو اُس کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے۔
بھٹو صاحب کی سیاست، حکومت، حکومت کا خاتمہ، اُن پر مقدمات اور اُن کی پھانسی ملکی تاریخی میں نہایت ہی متنازع اُمور رہے۔ شاید آیندہ مزید کچھ سال رہیں۔ گوکہ تاریخ دھیرے دھیرے ان کے حوالے سے تمام اُمور کو واضح کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر اُن کو جب پھانسی کے تختے پر لٹکایا گیا، تو تب ملک میں اگر اکثریت نہ سہی لیکن ایک معقول تعداد اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ ایک مجرم کو سزا ملی، لیکن آج 44 سال بعد اُن کی سیاست اور نظریے کے شدید ترین مخالفین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اُن سے زیادتی ہوئی۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
بہرحال بھٹو صاحب کی قابلیت و دانش کا کوئی منکر نہیں۔ اُنھوں نے اسیری کے دوران میں پنڈی ڈسٹرک جیل تب اڈیالہ جیل نہ تھی، بلکہ راولپنڈی مین کچہری کے پاس پنڈی ڈسٹرک جیل تھی کہ جس کو ختم کیا گیا اور وہاں محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک عوامی پارک (بھٹو پارک کے نام سے) بنایا تھا کہ جس کو بعد میں میاں نواز شریف نے نام بدل کر جناح پارک رکھ دیا۔ آج بھی اگر آپ اُس پارک میں جائیں، تو اُس کے مشرق کی طرف چار مینار بنے ہوئے ہیں، جن پر پاکستان کے چار صوبوں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ وہ مینار محترمہ نے خصوصی طور پر بنوائے تھے اور یہ وہی جگہ ہے جہاں پھانسی کا وہ چبوترہ تھا، جہاں بھٹو صاحب کو لٹکا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔
اُس جبوترے سے محض چند فٹ کی دوری پر وہ کال کوٹھری تھی، جہاں ذوالفقار علی بھٹو قید تھے۔ بہرحال یہاں دورانِ قید بھٹو صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی کہ جس کا نام ’’ریومرز اینڈ فیکٹ‘‘ یعنی ’’افواہیں اور حقائق‘‘ تھا۔ گویا یہ کتاب چاروں صوبوں یعنی پاکستان سے چند فٹ کی دوری سے لکھی جا رہی تھی اور پاکستانی ایوانِ اقتدار کی پُراَسرایت کو واضح کر رہی تھی۔
اُس کتاب پر سابقہ آمرضیاء الحق کے دور بلکہ بعد میں بھی سالوں پابندی لگی رہی اور شاید 2008ء کے بعد یہ پاکستان میں ملنا شروع ہوئی۔ یہ بہت ہی کلاسیکل کتاب ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست، صحافت، معاشرت اور تاریخ کے ہر طالب علم کو اس کا لازمی مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس کتاب میں بھٹو صاحب نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن اُن کو بتایا گیا کہ بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلا اور معزز سیاست دان محترم عطاء اﷲ مینگل کا ایک بیٹا غائب ہے۔ مینگل صاحب نے اس کا الزام براہِ راست وزیرِ اعظم (یعنی بھٹو صاحب) پر لگایا ہے۔
یاد رہے کہ یہ عطاء اﷲ مینگل معروف سیاست دان بی این پی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعلا اختر مینگل کے والد تھے۔
بھٹو صاحب لکھتے ہیں کہ جب مَیں نے اس بارے معلوم کیا، تو پتا چلا کہ مذکورہ نوجوان فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا ہے۔ جب اُنھوں نے اِس پر اُس وقت کے آرمی چیف یعنی جنرل ٹکا خان سے استفسار کیا، تو جنرل ٹکا خان نے بتایا کہ ایسا ہی ہے۔ اِس پر جب بھٹو صاحب نے اُس نوجوان کی میت یا قبر بارے پوچھا، تو اُن کو کہا گیا کہ جنرل ضیا کی کمانڈ میں ژوب کے قریب کسی نا معلوم جگہ پر اُس کو دفن کیا گیاہے۔
جب بھٹو صاحب نے جنرل ٹکا خان سے کہا کہ اُس کا باپ اس عمل کا الزام مجھ پر براہِ راست لگا رہا ہے، اب میں کیا کروں؟ تو ٹکا خان نے کہا کہ سر! آپ کَہ دیں کہ وہ نوجوان کہیں افغانستان چلا گیا ہے۔ بھٹو صاحب نے ایسا یہی کیا…… مگر آگے بھٹو صاحب لکھتے ہیں کہ شاید یہ ان کی بھیانک غلطی تھی۔ کاش! وہ اُس وقت افواہ سازی نہ کرتے بلکہ صاف اور مبنی بر حقیقت بات قوم کے سامنے رکھتے، تو شاید اُن کا انجام یہ نہ ہوتا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں اور ہو رہے ہیں…… لیکن اس 21ویں صدی جو کہ سوشل میڈیا کی صدی ہے، جہاں کسی چیز کا پوشیدہ رہنا نا ممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے…… لیکن ہمارے ملک میں آج بھی وہی حالات ہیں۔
مثال کے طور پر سانحۂ 9 مئی۔ اس واقعہ پر ہر طرف زور بس افوہوں اور سنی سنائی باتوں پر ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ فوج کے پاس تمام ثبوت ہیں۔ کوئی کَہ رہا ہے کہ فوج کے اپنے کئی سینئر ترین افسر فوج کی تحویل میں ہیں۔ کوئی کَہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کرچکی ہے کہ 9 مئی کے ذمے داران کو بہ ہر صورت کٹہرے میں لانا ہے…… لیکن عملاً عوام کو کچھ بھی معلوم نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کراچی یونیورسٹی میں خود کُش حملہ کی ممکنہ وجوہات  
ٹکراو کی نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے 
غیر متعلقہ مسائل میں الجھائی گئی قوم 
اس تمام معاملے میں تحریکِ انصاف مرکزی فریق ہے، جب کہ دوسری طرف 9 مئی کو چوں کہ براہِ راست فوجی عمارات و دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اس لیے اس کی مدعی پاک فوج ہے۔ سو اس سلسلے میں آخر ایک اعلا سطح کا عدالتی کمیشن کیوں نہیں تشکیل دیا جاتا کہ جس میں نہ صرف حکومت کی نمایندگی ہو، بلکہ اس میں فوجی اداروں کی اہم شخصیات بھی ہوں۔
یہ کمیشن چند ہفتوں میں نہ صرف حقائق عوام کے سامنے رکھے، بلکہ سانحۂ 9 مئی کے اصل مجرمان کا بھی تعین کرے۔
لیکن اب تک ہو کیا رہا ہے……! تحریکِ انصاف کے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر چند دنوں بعد وہ ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں کہ جس میں وہ تحریکِ انصاف سے علاحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔ کچھ سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور کچھ دوسری جماعتوں خاص کر جو جہانگیر ترین اور علیم خان نے پاکستان استحکام پارٹی بنائی ہے، اُس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھر سب ختم۔
اسی وجہ سے عام عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ سانحۂ 9 مئی کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وگرنہ اس میں حقیقت بالکل صفر ہے۔ اگر مستقبل میں یہ تاثر پختہ ہوتا گیا، تو یہ ملک کی سالمیت اور اداروں کی توقیر کے لیے خطرناک صورتِ حال پیدا کرتا جائے گا۔
اس کے ساتھ اور اس سے کئی اہم مسئلہ بلوچستان میں ’’مسنگ پرسنز‘‘ یعنی گم شدہ لوگوں کا ہے۔ اَب بلوچستان میں خاص کر بلوچ کمیونٹی کے بہت سے لوگ جن میں اکثریت خواتین کی ہے، آئے دن اسلام آباد اور کوئٹہ کی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ان کے پیارے اور عزیز ایک دم سے غائب ہو رہے ہیں۔ اُن کے اکثر لواحقین یہ دعوا کرتے ہیں کہ اُن کو غائب ’’ایجنسیاں‘‘ کرتی ہیں۔ مطلب وہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں…… لیکن اُن کے گھر والوں کو اس کا علم تک نہیں کہ اُن کو کیوں پکڑا گیا، ان پر کیا الزام ہے اور ان کا کیا قصور ہے؟
لواحقین مطالبہ کرتے ہیں کہ اُن کے رشتے داروں پر باقاعدہ پرچہ دیا جائے اور عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ اگر وہ مجرم ثابت ہوتے ہیں، تو پاکستان کے قانون کے تحت اُن کو سزا دی جائے۔ کم از کم لواحقین کو اُن کی حقیقی صورت حال کا تو پتا ہو……!
لیکن حالات یہ ہیں کہ لواحقین کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ…… یعنی ’’ابینندن‘‘ جیسے دہشت گرد جاسوس بارے تو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے…… لیکن ہمیں اپنے شہریوں بارے معلوم نہیں۔
دوسری طرف حکومت کا موقف یہ ہے کہ اُن میں اکثر افغان وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ کچھ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل گئے ہیں اور کچھ کسی اور وجہ سے خود غائب ہوجاتے ہیں۔ بہت کم ایسے بھی ہیں، جو غیر ملکی ایجنٹ ثابت شدہ ہیں اور ہمارے پاس تفتیش کے لیے ہیں…… مگر اس صورتِ حال کو کچھ مفاد پرست سیاست دان خاص کر سردار محض ذاتی سیاسی مفادات کے لیے سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جب کہ کچھ سردار بہ ذاتِ خود غیر ملکی ایجنڈے پر ہیں…… اور اس خالصتاً ملکی سالمیت کے مسئلے کو کچھ باہر سے فنڈڈ این جی اُوز اور صحافی اپنے مفاد واسطے اُچھالتے ہیں۔
قارئین! ہم نہیں جانتے کہ اصل حقائق کیا ہیں، لیکن بہرحال اس سے انارکی اور کنفیوژن پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ آخر ریاست کوئی واضح حکمتِ عملی کیوں نہیں اپناتی۔ کوئی بھی شخص خواہ کوئی کتنا بڑا افسر یا سیاست دان ہی کیوں نہ ہو، خواہ کوئی کتنا بڑا سردار یا بااثر حکم ران کیوں نہ ہو…… اگر اس کی کوئی بھی سرگرمی ریاست کے خلاف ہے، تو پھر تمام ثبوتوں کے یساتھ اس پر مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے…… اور مجرم ثابت کروا کر اُسے سرِعام لٹکا دیا جائے۔ جب آپ یوں نہ کریں گے، تو پھر کنفیوژن ہوگا…… اور اس کنفیوژن سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی، اور اُن غلط فہمیوں سے افواہیں جنم لیں گی۔ پھر ظاہر ہے ملک دشمن شخصیات اور دشمن ممالک کے لیے یہ بہترین فضا بنے گی کہ وہ ان افواہوں میں معصوم لوگوں کو مزید گم راہ کریں اور اُن کے دل میں ریاست کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیں۔
اس کی ایک بہت واضح مثال ہمارے لیے سنہ 1971ء کی ہے۔ 71ء کے سانحے میں بے شک اور بہت سے عوامل تھے، لیکن اُن میں سے اہم وجہ انتظامی ایکشن تھی کہ جس کی وجہ سے غیر ملکی طاقتوں سمیت بہت سے داخلی عناصر نے نوجوان بنگالیوں کے دلوں میں نفرت کا سمندر پیدا کر دیا تھا۔ ایک عام بنگالی نوجوان بہت سنجیدگی سے یہ سمجھتا تھا کہ اُس کی اپنی ریاست اُس کی دشمن ہے اور پھر وہ اپنے ہی ملک کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے تیار ہوگیا تھا۔
یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست کے استحکام کے لیے پہلی شرط اُس کے عوام کی ریاست کے ساتھ غیر مشروط وفاداری ہوتی ہے۔ جب خود اپنے ہی عوام بے شک کسی غلط فہمی یا کسی اجتماعی ناانصافی کی وجہ سے اپنے ہی ملک کے خلاف ہو جائیں، تو پھر اُس ریاست کا قائم رہنا ممکن ہی نہیں رہتا۔
آج بہت حد تک یہ صورتِ حال بلوچستان کی بن چکی ہے اور اس میں مسنگ پرسن کا ایشو مرکزی نوعیت کا ہے۔ سو ہم ریاست اور حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ براہِ کرم اس کو زیادہ سنجیدہ لے اور ممکنہ حد تک لوگوں کو مطمئن کرے اور اس کے بعد اگر کچھ کیسوں میں راز داری ضروری ہے، تو بھی ایک متعین مدت تک رکھی جائے۔ وگرنہ یہ نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور پھر حالات قابو سے باہر ہوجائیں۔ کچھ انسانی حقوق کی آوازوں کو غدار قرار دینے سے یہ مسئلہ حل ہونا ممکن نہیں اور نہ تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔