رمضان کے آخری ہفتے میں کراچی یونیورسٹی میں ایک دل خراش واقعہ رونما ہوا۔ بلوچ عسکریت پسند تنظیم ’’مجید بریگیڈ‘‘ نے نہ صرف مذکورہ واقعے کی ذمے داری قبول کی…… بلکہ بعد میں ایک مختصر سی ویڈیو جو صحافتی حلقوں میں زیرِ گردش ہے، میں چین اور پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے اس طرح مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔
مذکورہ خود کُش حملہ مبینہ طور پر ایک پڑھی لکھی عورت نے کیا ہے۔ وہ عورت جو سرکاری سکول میں استانی تھی…… جس کے دو بچے بھی ہیں۔ شوہر ڈاکٹر، باپ سرکاری یونیورسٹی سے رجسٹرار سُبک دوش، خاندان کے باقی لوگ بھی اعلا سرکاری عہدیدار۔
رپورٹس کے مطابق اس خاتون کے خاندان کا کوئی بندہ ’’مسنگ پرسنز’’ میں بھی نہیں، اس لیے یہ بیانیہ کہ بلوچستان میں ہر ردِ عمل کے لیے ذمے دار ریاستی عمل یا جبر ہے…… یہاں بالکل درست نہیں۔ لہٰذا یہ صورتِ حال نہایت قابلِ تشویش ہے۔ کیوں کہ جب پڑھے لکھے لوگ اسی طرح کی کارروائی کرتے ہیں، تو ممکنہ وجوہات کچھ یوں ہوسکتی ہیں۔
٭ نظریاتی وجوہات……جن کا مقابلہ نظریاتی میدان میں دلیل کے ساتھ کیا جاسکتا ہے…… اور کیا جانا بھی چاہیے۔ کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر کم زوریوں کے باوجود پاکستان کا وجود یہاں بسنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ کیوں کہ جب پوری دنیا میں آپ کا کہیں اور ٹھکانا نہ ہو،تو یہ کم از کم اپنا وطن ہے…… بے شک اس میں کچھ لوگ خود کو برتر اور باقی کو کم تر سمجھتے ہیں…… مگر اس کا حل گھر کو جلانا اور برباد کرنا نہیں…… بلکہ بڑے بھائی کو قایل کرنا ہے کہ ہم سب برابری کی سطح پر گھر کے مکین ہیں۔ لہٰذا ظلم وجبر اور اُونچ نیچ کا رواج نہیں چلے گا۔
٭ دوسری ممکنہ وجہ ذاتیات پر مبنی ہوسکتی ہے کہ کوئی فرد ریاستی یا غیر ریاستی جبر کا شکار رہا ہو…… ایسے میں پھر جابر، مجبور کا استحصال کرکے مخالف کے خلاف اُسے انتہائی اقدام یعنی خود کُشی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اس قسم کا تدارک زیادہ مشکل ہے کہ آپ ہر فرد کی زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ کریں…… مثلاً حالیہ واقعے میں خاندانی ذرایع اور حالات سے واضح ہے کہ ریاستی جبر کے آثار تو ہیں نہیں…… البتہ یہ مبینہ خاتون حملہ آور ’’غیر ریاستی جبر‘‘ یا پھر ’’مجید بریگیڈ‘‘ کے جبر کا تو شکار نہیں رہی؟ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔ کیوں کہ ممکن ہے…… جہاں یہ عورت نوکری کرتی تھی، وہاں کچھ ایسا ہوا ہو کہ ایک پڑھی لکھی عورت دو بچوں اور تاب ناک مستقبل کو چھوڑ کر خود کش حملہ کرے۔
٭ تیسری ممکنہ وجہ بیرونی مداخلت کی ہوسکتی ہے، جیسا کہ بلوچستان سے کلبھوشن کو پکڑا گیا تھا، مگر اس کا حل اور طاقت ریاستی اداروں کے پاس موجود ہے۔ لہٰذا اس کے امکانات معدوم ہیں کہ مذکورہ خاتون براہِ راست غیر ملکی ہینڈلرز کے ہاتھوں دھوکا کھا چکی ہو۔
وجوہات دیگر بھی ہوسکتی ہیں…… مگر یہ حملہ اس حوالے سے بھی زیادہ قابلِ تشویش تھا کہ اس میں چینی اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب استاد چاہے کوئی بھی ہو…… کسی بھی ملک کا کیوں نہ ہو…… اگر وہ پاکستان آکر پاکستانیوں کو پڑھا رہا ہے، تو وہ ’’محسنِ پاکستان‘‘ ہے۔ لہٰذا اپنے محسنوں کو مارنا کہاں کی عقل مندی ہے!
بہرحال حسبِ معمول مذمتی بیانات کا سلسلہ چل پڑا ہے…… لیکن جوں ہی ہفتہ گزر چکا، تو یہ معاملہ بھی میڈیا سے اُتر چکا…… جو کہ مناسب نہیں۔ کیوں کہ یہاں جو مسئلہ جب تک میڈیا میں بریکنگ نیوز کا حصہ ہو، تب اس کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اس لیے بلوچستان ہر بریکنگ نیوز کا حصہ اس کے مسایل کے حل تک ہونا چاہیے۔ کیوں کہ حالیہ دورۂ بلوچستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’مسنگ پرسنز کے معاملے پر بااختیار لوگوں سے بات کروں گا!‘‘ اگر وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی بے اختیاری کا اظہار کر رہے ہیں، تو پھر لازم ہے کہ میڈیا میں بلوچستان سرِفہرست رہے، تاکہ معاملات حل ہوں اور امن بحال ہو…… وگر نہ تعلیم یافتہ خود کُش حملہ آوروں کی یہ ریت چل پڑی، تو یہ ہماری بدقسمتی ہوگی۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔