جس وقت ہمارے بچے، بچیاں اور ہم گرم بستروں میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے، بلوچستان کی ایک ننھی سی گڑیا بھی دیگر مظلوموں کے ساتھ اپنے کسی کھوئے ہوئے کی تصویر لیے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اُس کے بعد پُرامن احتجاج کرنے والے اُن شہریوں پر بلاامتیازِ عمر و جنس جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، اُمید ہے سب کو ثبوت مل چکے ہوں گے۔
ظہیر الاسلام شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
مظلوم فقط مظلوم ہوتا ہے۔ اُسے نسل، مذہب، رنگ، شہریت یا کسی بھی دوسری بنیاد پر نظر انداز کرنا بذاتِ خود ظلم ہے۔ اس لیے فلسطین کے مظلوموں کا موازنہ بلوچستان اور فاٹا کے مظلوموں کے ساتھ کرنا اور اُن میں کسی ایک پر دوسرے کو ترجیح دینا غلط ہے، لیکن ہمارے ہاں پائی جانے والی شدید منافقت کی وجہ سے یہ موازنہ کرنا پڑتا ہے۔
وہ لوگ جن کی فیس بک ٹائم لائن فلسطینی مظلوموں کے تذکروں سے تو بھری پڑی ہے، لیکن اُن کو اپنے ہی پڑوس میں ریاستی جبر کے شکار برائے نام پاکستانی نظر نہیں آتے، محض منافق ہیں۔
ملک کی ایک نامی گرامی یونیورسٹی کا ایک پروفیسر فلسطین کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستانیوں کو آئے دن بے حسی اور بے غیرتی کے طعنے دے رہا ہوتا ہے اور اُس کی خواہش ہے کہ خود تو سرکاری آفس میں ہیٹر اور فیس بُک پر ’’چے گوارا‘‘ بنے رہنے کے مزے لیتا رہے، لیکن اُس کے شاگرد اور باقی لوگ بندوق اُٹھا کر اسرائیل پر حملہ آور ہوجائیں…… بالکل اُسی طرح جیسے سرمایہ داری اور اشتراکیت کی پرائی جنگ کے دوران میں مولویوں اور جرنیلوں نے بے شمار لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہوئے افغانستان بھیج کر مروا دیا تھا۔ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اُس نے کبھی مقامی مظلوموں کے حق میں کوئی پوسٹ لگائی ہو۔
دیگر متعلقہ مضامین:
قومیں کیسے بنتی ہیں؟
لیول پلینگ فیلڈ کا رونا روتی قوم  
غلام قوم کے راہ نماؤں کے پروٹوکول 
ہمارا قومی رویہ
دنیا کی نمبر وِن تعلیم یافتہ قوم 
یہ محض اُس ایک پروفیسر کی بات ہوتی، تو میں بالکل اس کا تذکرہ نہ کرتا۔ یہ اُن جیسے بے شمار پروفیسروں، مولویوں، سیاست دانوں اور جرنیلوں کی لوگوں کو مقامی مسائل کے بارے میں جاہل رکھنے اور اُنھیں دور دراز اور بڑی حد تک غیر متعلق مسائل میں اُلجھائے رکھنے کی متفقہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں یہ تو نظر آجاتا ہے کہ امریکہ کون سا ظلم کر رہا ہے اور اسرائیل اور بھارت کہاں بر سر پیکار ہیں؟ لیکن یہ نظر نہیں آتا کہ ہماری اپنی ریاست ہمارے ہم وطن شہریوں اور خود ہمارے ساتھ کیا کرتی آرہی ہے اور ہمیں اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے ؟
یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ فلسطینی مظلوموں کے ساتھ لاکھ ہم دردیوں کے باوجود ہم اُن کی جنگ میں اُس قدر مدد نہیں کرسکتے، جس قدر مدد ہم اپنے ہم وطن مظلوموں کی کرسکتے ہیں، لیکن اگر ہم پھر بھی نظریں چراتے ہیں اور محدود مراعات کی خاطر ریاست کی ظالم اسٹیبلشمنٹ کے آلۂ کار بنے رہتے ہیں، تو اس کا واحد مطلب یہی ہے کہ ہم ظلم کے خلاف نہیں، فقط لوگوں کو گم راہ کرنے کا ڈراما رچا رہے ہیں۔
قارئین! اسلام آباد کی سڑکوں، ریاست کی جیلوں اور تشدد کے بعد ہسپتالوں میں خوار ہوتی ہوئیں ماورائے عدالت قتل یا جبری طور پر گم شدہ کیے گئے پاکستانیوں کی بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کے ساتھ اظہارِ ہم دردی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ تصویر میں موجود اُس کتابچے کا مطالعہ کریں جس میں مختلف ادوار میں ملک کے کونے کونے میں ’’غیر قانونی‘‘ طور پر قتل یا گم شدہ کیے گئے ہم وطنوں کی تاریخ رقم ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔