ہمارا قومی رویہ کیا ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کا کیا؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہم آج تین مثالیں دینا چاہتے ہیں جو حیوانات کی فطرت سے کشید کی گئی ہیں۔
٭ مینڈک:۔ سپین کے ماہرین نے ایک تجربہ کیا۔ انھوں نے پانی کا ایک ٹب لیا اور اس میں مینڈک کو چھوڑ دیا۔ نیچے آگ جلا دی۔ قدرت کی طرف سے مینڈک میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے درجۂ حرارت میں ایک خاص حد تک خود کو ڈھال لیتا ہے۔ اب نیچے لگی آگ کی وجہ سے مینڈک نے خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا، جوں جوں آگ کی تپش بڑھتی جاتی، پانی کا درجۂ حرارت بڑھتا جاتا اور مینڈک اس درجۂ حرارت کے مطابق خود کو ڈھالتا جاتا۔ مگر ایک وقت آیا کہ پانی کا درجۂ حرارت مینڈک کی قوتِ برداشت سے زیادہ ہوگیا۔سو اس نے جمپ لگا کر باہر نکلنے کی کوشش کی، لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ مینڈک اپنی تمام توانائی کو پہلے ہی ضائع کرچکا تھا اور یوں وہ اس مصیبت سے نکلنے میں ناکام ہوگیا اور کھولتے ہوئے پانی میں جل کر مرگیا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
٭ شیر:۔ شیر کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ جب وہ پیٹ بھر کر کھا چکا ہو، تو وہ آرام کے لیے لیٹ جاتا ہے۔ اس دوران میں چھوٹے بڑے جانور بے شک اس کے جسم سے کھیلتے رہیں، اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ دوسرے جانوروں کو بے شک یہ خوش فہمی ہو کہ انھوں نے شیر کو بے بس کر دیا ہے، لیکن شیر کو ان کی خوش فہمی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ شیر کی یہ کیفیت ایک محدود حد تک ہوتی ہے اور جب شیر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کی خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور اگر وہ مزید سکون میں رہا، تو دوسرے جانور اس کو مزید تنگ کریں گے، تو پھر وہ خطرناک طریقے سے دھاڑ مارتا ہے جس کو سن کر دوسرے جانور خوف سے بھاگ جاتے ہیں اور اگر پھر بھی کوئی نیولا، کوئی چوہا یا کوئی لومڑ وغیرہ پروا نہ کرے، تو شیر ایک منٹ میں اس کو دبوچ لیتا ہے اور پھر چند لمحوں میں اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
٭ برفانی بھیڑیا:۔ اکثر جو پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں پر بھیڑیے رہتے ہیں، قدرت نے ان میں ایک خاص قسم کی حس رکھی ہوتی ہے کہ جوں ہی کسی برفانی طوفان کی آمد ہو، اُن کو پہلے سے معلوم ہو جاتا ہے۔ اس دوران میں بے شک اُن کو بہت زیادہ شکار نظر آرہا ہو، وہ اس کی پروا نہیں کرتے…… بلکہ ایک مخصوص آواز کے ساتھ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی اس آنے والے ممکنہ خطرہ سے آگاہ کرتے ہیں۔ پھر وہ سب بہت تیزی سے وہ جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس عمل سے اُن کو دو فائدے براہِ راست ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ اپنی جان بہت آرام سے محفوظ کرلیتے ہیں اور دوسرا ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس برفانی طوفان میں بہت سے دوسرے جانور دب چکے ہیں کہ جو ان کے لیے بنا کسی کوشش یا تردد کے بطورِ خوراک تیار ہیں۔ یوں طوفان کے خاتمے کے بعد وہ واپس جا کر ان مردہ جانوروں کوبرف سے نکال کر بہت عیش سے کھانا شروع کردیتے ہیں۔
اب ذرا آپ درجِ بالا تین مثالوں کو آج کی دنیا کی دوسری اقوام اور خود اپنے رویے سے چیک کریں، تو بہت دلچسپ صورتِ حال بنتی ہے۔ مَیں نے کافی غور و فکر کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ ان مثالوں کو ہم دنیا کی اقوام سے اگر تشبیہ دیں، تو صورتِ حال کچھ اس طرح بنتی ہے کہ آج کی دنیا میں مختلف اقوام کا رویہ مختلف ہے۔ سو یہ سمجھنے کے لیے تین واقعات جاننا ضروری ہیں۔
٭ پہلاواقعہ:۔ یہ پاکستانی قوم ہے کہ جس کو بتایا گیا ہے کہ آج کے عالم انسانیت میں اکلوتا ایمان دار بس حضرتِ عمران خان ہے۔ ہم عمران خان کو بہت امیدوں سے لائے۔ پھر کیا ہوا…… کہ درجۂ حرارت بڑھتا گیا اور ہم اس کو مجبوری سمجھ کر سمجھوتا کرتے گئے۔ آخر بات ہماری برداشت سے باہر ہوگئی، تو ہم نے مہنگائی مارچ کرنے والوں کو مسیحا سمجھ کر خوش آمدید کہنے کی تیاری کرلی، مگر ریاست پر سیاست قربان کرنے کے دعوے داروں نے ہماری ہڈی پسلی ایک کر دی۔ ہم یہ کَہ کر خوش ہوتے رہے کہ سب کیا دھرا عمرانی حکومت کا ہے۔ معمولات صحیح ہوجائیں گے۔ مفتاح اسماعیل کو فارغ کر کے ہمیں اسحاق ڈار کا جھنجھنا دیا گیا اور نوبت اب یہاں تک آگئی ہے کہ حالات کنٹرول سے اس حد تک باہر ہوگئے ہیں کہ غریب آدمی کے لیے روٹی کا حصول نا ممکن ہوگیا ہے…… لیکن اب ہم میں اتنی سکت بھی نہیں کہ ہم احتجاج ہی کرلیں۔ گویا ہماری مثال اُس مینڈک کی طرح ہے کہ بدلتے حالات کو برداشت کرتا جاتا اور ایک وقت آتا ہے کہ برداشت بھی جواب دے جاتی ہے اور طاقت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ بس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے اور وہ ہے دردناک موت، جل کر مرنے والی قسمت۔ کاش، جیسے ہی ہم پر مہنگائی، کرپشن اور اقربا پروری کا کوڑا برستا، ہم عقل سے کام لیتے اور فوراً احتیاطی تدابیر اختیار کرتے، تو بعد میں یہ نوبت نہ آتی…… لیکن یہ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہم بس برداشت کرتے جاتے ہیں اور جب براداشت ختم ہوتی ہے، تو جل کر مرنے والے مینڈک کی طرح قوت بھی ضائع کر چکے ہوتے ہیں۔ پھر سسک سسک کر مرنے کو فیصلۂ تقدیر سمجھ کر قبر پہنچ جاتے ہیں۔
٭ دوسرا واقعہ:۔ اٹلی کا ایک خوب صورت سیاحتی شہر ہے میلان۔ جب لوگ صبح سویرے اُٹھے کام کاج کے لیے، تو انھوں نے دیکھا کہ شہر کے ایک حصے میں کچرا پڑا ہوا ہے۔ بس پھر کیا تھا، اٹلی کے عوام شیر کی طرح بپھر گئے۔ پورا میلان باہر نکل آیا۔ ہجوم کی بس ایک ہی شرط تھی کہ یا شہر کا مئیر آئے یا وزیرِ بلدیات۔ قسمت کا مارا وزیرِ بلدیات اتفاق سے وہی تھا، وہ چلا گیا ہجوم کو سمجھانے اور منانے، لیکن ہجوم نے نہ اُس کی بات سنی نہ مانی…… بلکہ وزیر صاحب کو پکڑ کر کوڑے والے ڈرم میں ڈال دیا اور یہ نعرے مارنے شروع کر دیے کہ اصل کچرا تم ہو۔ مَیں سوچتا ہوں کہ اٹلی کے عوام کا یہ رویہ بالکل شیر والا تھا کہ چلو حکومت ٹیکس لگاتی ہے، تو خیر ہے، برداشت کرو…… لیکن ٹیکس لے کر بھی جب عوام کا کام نہ کرو یعنی مزید تنگ کرو، تو پھر عوام اپنی طاقت کا صحیح و بروقت استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے…… اور اکثر بلکہ تمام ترقی یافتہ ممالک کے عوام کا مجموعی قومی رویہ یہی ہے۔
٭ تیسرا واقعہ:۔ اب آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ جنوبی امریکہ کے خوب صورت ملک ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں ایک شخص صبح سویرے ایک دُکان پر جاتا ہے۔ ناشتے کے لیے انڈے خریدنا چاہتا ہے، مگر جب دکان دار اس کو قیمت بتاتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ چند دن قبل تو قیمت مناسب تھی، اب اتنی زیادہ کیوں ہوگئی؟ دکان دار اس کو روایتی جواز دیتا ہے کہ اس کی وجہ پیچھے سے مال کی سپلائی کا مہنگا ہونا ہے، یعنی پولٹری والوں نے قیمت زیادہ کر دی ہے۔ سو اس وجہ سے اب انڈے مہنگے ہیں۔ اس شخص نے انڈوں کی ٹرے واپس رکھ دی اور کہا مجھے ضرورت نہیں۔ اب بیونس آئرس میں، مَیں لوگوں کو بتاؤں گا کہ بغیر انڈوں کے بھی گزارا ہو جاتا ہے۔ دکان دار اس کی اس بات پر ہنسا اور ہتک آمیز طریقے سے کہا کہ جو کرنا ہے، کرو اور جاؤ۔ کسی نے اس کی بات کو سنجیدہ نہ لیا…… لیکن اس دھن کے پکے شخص نے ایک چھوٹا سپیکر لیا اور بیونس آئرئس کے گلی کوچوں میں یہ اعلان شروع کر دیا کہ جب تک انڈوں کی قیمت کم نہیں ہوتی، کوئی شخص انڈوں کی خریداری نہ کرے۔ شروع شروع میں تو عوام نے اس کو سنجیدہ نہ لیا، اس کا مذاق اُڑایا، لیکن آہستہ آہستہ اس کی بات اثر کرنا شروع ہوگئی اور پھر بہت جلد وہ وقت آیا کہ بیونس آئرئس سے نکل کر انڈوں کے بائیکاٹ کی یہ تحریک پورے ارجنٹائن میں پھیل گئی اور پورے ملک کے عوام نے انڈے کھانے سے انکار کر دیا۔نوبت اس حد تک پہنچی کے ارجنٹائن کی پوری پولٹری انڈسٹری دِوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ بڑے بڑے پولٹری فارمز کے مالک آسمان سے زمین پر آگئے اور پھر حکومت کو درمیان میں ڈال کر منت سماجت کر کے نہ صرف قیمتوں کو مناسب سطح پر آئے، بلکہ آئندہ دو سال کے لیے قیمتوں کو فکس کر دیا گیا۔
یہ واقعہ میرے لیے ان پہاڑی بھیڑیوں کے رویے کی طرح لگا کہ جو طوفان کی آمد سے قبل ہی محتاط ہو جاتے ہیں…… اور پھر اپنی جان بھی بچالیتے ہیں اور بنا کسی تردد اپنے لیے خوراک کا بھی بندوبست کرلیتے ہیں…… لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدرت نے ہمیں مینڈک، مغرب کو شیر اور جنوبی امریکہ سمیت کچھ دوسرے ترقی پذیر ممالک کو بھیڑے کی فطرت دی ہے…… یا اس کی کچھ ذمے داری ہم پر بھی ہے؟ کیاکسی دوسرے کے دو دماغ، چار آنکھیں اور چھے ہاتھ ہیں؟ جب ان کی بھی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں ہمارے ہی جیسی ہیں، تو آخر ہم شیر یا کم از کم بھیڑے کیوں نہیں بننا چاہتے؟ کیا ہم ہمیشہ سے ہی مینڈک اور گیڈر کی طرح رہیں گے؟ کیا ہم نے کبھی شیر بننے بارے سوچنا یا کوشش نہیں کرنی؟
آخر میں ایک بات ہم اپنے قارئین کو یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ دین کی تعلیم بھی یہی ہے کہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے اور ﷲ تعالا کا بھی یہی حکم ہے کہ اُس قوم کی حالت نہیں بدلتی جو خود بدلنے کی کوشش نہیں کرتی۔ سو ہم کو نہ تو ہر چیز صرف تقدیر پر چھوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے اور نہ اس ظلم و بربریت کو برداشت کر کے مرنا ہی ہے۔ امام علی بن ابی طالب کا قولِ مبارک ہے کہ ظلم کرنا تو بے شک ظلم ہے، لیکن ظلم کو برداشت کرنا بذاتِ خود ظلم ہے۔
آخر ہم ہر زیادتی کو تقدیر کا لکھا فرض کرکے کیوں خاموشی سے برداشت کرتے رہیں؟ ہمارے حکم ران تو اربوں روپیا پروٹوکول پر اُڑا دیں اورعوام اپنی استطاعت سے بھی کئی گنا مہنگا آٹا…… وہ بھی لائین لگ کر خجل خوار ہو کر خریدنے پر مجبور ہوتے رہیں…… اور پھر دلچسپ بات یہ کہ اس کو قبول کرتے رہیں۔ اگر ہمارا مجموعی قومی رویہ یہی رہا، تو بے شک ہزار سال گزر جائیں، ہماری مجموعی زندگی میں رتی بھر بھی فرق نہیں پڑنے والا۔ یہی قانونِ فطرت ہے اور یہی نظامِ قدرت۔
اب فیصلہ ہم یعنی عام آدمی نے کرنا ہے کہ وہ کب تک اس ظلم و جبر کے نظام سے سمجھوتا کرتا رہے گا اور اپنی اور اپنی آیندہ آنے والی نسلوں کی زندگی کو اس دنیا میں ہی جہنم بناتا رہے گا۔
رہے نام اللہ کا……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔