تبصرہ نگار: اقصیٰ سرفراز 
’’البرٹ کامیو‘‘ کے اس ناول کے توسط میری ملاقات ورکنگ کلاس کے ایک ایسے نوجوان سے ہوئی ہے، جو دن رات خوشی کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ اُس کے نزدیک خوشی سے مراد دولت ہے۔ دولت کے بغیر انسان خوش و خرم، مطمئن اور پُرسکون نہیں رہ سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ دولت خوشیوں کے امکانات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم یہی خوشی اُس کی زندگی کا محور و مرکز بن جاتی ہے۔ یہاں سے وہ اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ خوشی کو تلاش کرتا ہے، مگر ناکام رہتا ہے۔ ناکامی اور مایوسی کی جنگ لڑتے لڑتے وہ زندگی سے دوری محسوس کرنے لگتا ہے۔ ہر شے سے لاتعلقی اختیار کرلیتا ہے۔ بس خود کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
’’کیا موت کی خوشی ممکن ہو سکتی ہے؟‘‘
اسی سوال کے جواب کی جھلک اس ناول میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ناول کامیو کو موت کی خوشی حاصل ہونے (یعنی اس کی موت) کے بعد شائع ہوا۔ دنیائے ادب نے اسے ایک عظیم ادبی کارنامے کے طور پر لیا۔
اس ناول کا آغاز ایک قتل سے شروع ہوتا ہے اور اس کے ہیرو (مرساں) کی موت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
کامیو نے اپنے ہیرو کی حیات کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے کہ کس طرح مرساں پُرہجوم اور بعد از جوگیانہ انداز میں خوشی کی تگ و دو کرتا ہے۔
تو کیا مرساں خوشی حاصل کر پاتا ہے؟ اگر ہاں، تو کیسے……؟ اس کے لیے موت کی خوشی کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔
کتاب کا یہ اقتباس قاری کو سوچنے کو پہ مجبور کر دیتا کہ آخر مرساں خوشی کس چیز میں ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’تم یہ سوچنے میں غلطی پر ہو کہ تمھیں انتخاب کرنا ہے۔ تمھیں وہ کرنا ہے جو تم کرنا چاہتی ہو اور یہ کہ خوشی کی کوئی شرطیں ہوتی ہیں۔جو بات اہم ہے، وہ یہ ہے کہ خوش رہنے کی خواہش ہونی چاہیے۔ ہر وقت شعوری طور پر خوشی کی تلاش…… باقی سب باتیں مثلاً: عورت، فن اور کامیابی کچھ بھی نہیں سوائے بہانے کے۔ زندگی ایک کینوس ہے جو ہمارے نقش و نگار کی منتظر ہے۔ میرے لیے جو بات اہم ہے، وہ یہ ہے کہ خوشی کا بھی ایک معیار ہونا چاہیے۔ مَیں یہ خوشی صرف ایک جد و جہد کے بعد حاصل کرسکتا ہوں۔ یہ سوال کہ کیا مَیں خوش ہوں؟ اس کا جواب میرے پاس یہ ہے کہ اگر مجھے اپنی زندگی دوبارہ گزارنی ہو، یا اس کا موقع ملے، تو مَیں اپنی دوسری زندگی بالکل اسی طرح گزاروں گا جیسے اب تک کی گزری ہے۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
بھوکی سڑک (تبصرہ)
جہاں گرد کی واپسی (تبصرہ) 
ناروے کی لوک کہانیاں (تبصرہ)
خوش ونت سنگھ کا ناول ’’دلی‘‘ (تبصرہ)
لیو ٹالسٹائی کا ناول ’’جنگ اور امن‘‘ (تبصرہ)  
ناول ’’اجنبی‘‘ غالباً سنہ 1936-37ء کے دورانیے میں تکمیل تک پہنچا۔ جب کہ ’’موت کی خوشی‘‘، ’’اجنبی‘‘ سے دو سال پہلے لکھا گیا۔ ’’موت کی خوشی‘‘ کا سیاق و سِباق اجنبی سے ملتا جلتا ہے۔ کتاب کا مرکزی کردار اور اس کی کہانی بالکل ’’اجنبی‘‘ ناول سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مشابہت کے باوجود ’’اجنبی‘‘ ناول کا وجود اس کی اِفادیت کو تاریخی لحاظ سے لازم و ملزوم بنا دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اجنبی میں پیش کردہ نظریہ ہے۔
بہرحال اسے باذوق قارئین کے لیے کافی انٹرسٹنگ سٹوری کہا جاسکتا ہے۔ اب تک عالمی ادب سے جڑے متعدد مصنّفین میرے زیرِ مطالعہ گزرے ہیں، مگر ’’کامیو‘‘ کی قلم کاری مشکل اور انوکھی رہی ہے۔ ’’کامیو‘‘ کے لکھے کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے قلمی دوستی پہلی شرط ہے۔
کامیو کے ساتھ دوسرا قلمی سفر بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ میرے لیے یہ سفر قدرے خوش گوار ثابت ہوا ہے۔ کامیو نے اس موضوع کے ذریعے بہت سی معاشرتی برائیوں کو آشکار کیا ہے۔ 80 صفحات پہ مشتمل یہ کتاب صدیوں پر محیط اور ہر لحاظ سے مکمل ہے۔
یہ بلاشبہ ایک اچھی، معیاری اور لائقِ تحسین کتاب ہے۔ موقع ملے تو ضرور پڑھیے گا…… یا یوں کَہ لیجیے کہ اسے اپنے زیرِ مطالعہ آنے کا موقع فراہم کیجیے گا۔
(نوٹ: البرٹ کامیو کے اس ناول کے مترجم ’’ڈاکٹر فریداللہ صدیقی ہیں اور اسے ’’سٹی بک پوائنٹ کراچی‘‘ نے زیورِ طبع سے آراستہ کیا ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔