میری زندگی کا ایک بڑا حصہ بیرونِ ملک گزرا اور دنیا کے اکثر دوسرے ممالک کے لوگوں سے میرا براہِ راست تعلق رہا، مگر ’’پروٹوکول‘‘ کے نام پر جو بدمعاشی اور بے غیرتی ہمارے ملک میں ہے، میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی اور ملک میں ہو۔
عام عوام کو پروٹوکول، حفاظتی اقدامات اور گرین بک کے نام پر جی بھر کے ذلیل کیا جاتا ہے۔ اس پر نہ صرف عوام کے ٹیکسوں سے وصول شدہ کروڑوں روپیا ضایع ہوتا ہے، بلکہ عوام کا بے تحاشا وقت بھی ضایع ہوتا ہے اور بے عزتی مفت میں۔ اس کے ساتھ جن لوگوں کو پروٹو کول دیا جاتا ہے، وہ ان کے اندر بلاوجہ غرور و نخوت جنم لیتی ہے۔ اس موضوع پر آگے کچھ بیان کرنے سے پہلے ایک واقعہ سن لیں جو کہ آج کل سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے، تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمے داری نہ دی جاتی۔ دلیل یہ تھی کہ تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے أئے ہو،جس سے تمھارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آگئی ہے۔ یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمے داری تمھیں دی جائے گی، تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کروگے۔ اس پر بطورِ مثال یہ کہانی اور اس طرح کے بے شمار دوسرے واقعات ہیں۔
جیسے ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا، خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے۔ واپسی پر اس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک بہت ہی خوب صورت کتاب لکھی۔ خاتون نے لکھا کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا، اُس وقت میرا بیٹا تقریباً چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہایش گاہ میں ہم رہتے تھے۔ ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد معمور تھے۔ روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پروگرام بنتے، ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعثِ فخر جانتے اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے، وہ اُسے اپنی عزت افزائی سمجھتا۔ ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے ہی میسر تھے۔ ٹرین کے سفر کے دوران میں نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالی شان ڈبا ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے، توسفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے دست بستہ کھڑا ہوجاتااور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا۔ اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے، تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتی، میرے بیٹے نے جواب دیا،جس کا اُس وقت موڈ کسی وجہ سے خراب تھا۔اُس نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹرین نہیں چلانی۔ ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا،جو حکم چھوٹے صاحب! کچھ دیر بعد صورتِ حال یہ تھی کہ اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کرتا رہا، لیکن بیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا۔ بالآخربڑی مشکل سے مَیں نے چاکلیٹ دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی، تو سفر کا آغاز ہوا۔چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی۔ ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے۔ ہماری منزل ویلز کی ایک کاونٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا۔ بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر مَیں ٹکٹ لینے چلی گئی۔ قِطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہوگئی، جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہوگیا۔ جب ہم ٹرین میں بیٹھے، تو عالی شان کمپاونڈ کی بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضی کا اظہار کرنے لگا۔ وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا، تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا۔ وہ زور زور سے کَہ رہا تھاکہ یہ کیسا الو کا پٹھا ڈرائیور ہے۔ ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی! مَیں پاپا سے کَہ کر اسے جوتے لگواؤں گا۔ میرے لیے اُسے سمجھانا مشکل ہوگیا کہ یہ اُس کے باپ کا ضلع نہیں، ایک آزاد ملک ہے۔ یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجے کے سرکاری ملازم تو کیا وزیرِ اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کرسکے۔
قارئین! آج یہ واضح ہے کہ ہم نے انگریز کو ضرور نکالا ہے۔ البتہ غلامی کو دیس سے نہیں نکال پائے۔ یہاں آج بھی کئی ڈپٹی کمشنرز، ایس پیز، وزرا و مشیران، سیاست دان اور جرنیل صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو گھنٹوں سٹرکوں پر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ اس غلامی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ ہر طرح کے تعصبات اور عقیدتوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ورنہ صرف 14 اگست کو جھنڈے لگا کر اور موم بتیاں سلگا کر خود کو دھوکا دے دیا کیجیے کہ ’’ہم آزاد ہیں!‘‘
اب جب میں نے ذکر شدہ واقعہ پر غور کیا اور اس کو تھوڑا گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کی، تو مجھے اپنا ہی لکھا ہوا ایک بیورو کریسی پر کالم یاد آگیا کہ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں، جو آج اس ماڈرن دور میں بھی وہی پرانے اینگلو سیکسین قوانین پر چل رہے ہیں۔ وہ نظام جو انگریزوں نے بطورِ آقا تشکیل دیے تھے، ہم اسی پر چل رہے ہیں۔ وگرنہ ہمارے ساتھ جو دوسرے غلام ممالک تھے، انھوں نے اس کو کلی نہیں تو جزوی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ حتی کہ سری لنکا، نیپال اور بھارت جیسے ممالک بھی اس کو ختم کرچکے ہیں۔ جب کہ کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ وغیرہ میں تو اس کا تصور بھی محال ہے۔
میری زندگی کا بڑا حصہ عرب ممالک میں گزرا ہے، جہاں خاندانی بادشاہتیں ہیں، لیکن وہاں بھی اس طرح کا کلچر نہیں۔ آج سے چند سال قبل وہ لوگ بادشاہ کی آمد پر بھی بس چند منٹ واسطے ٹریفک روکتے کہ جب شاہ کی سواری آچکتی اور جوں ہی شاہی بیڑا نکل جاتا، وہ تمام ٹریفک کھول دیتے۔ اب تو انھوں نے شاہی محلات اور ہوائی اڈّوں سے براہِ راست ہیلی کاپٹر کے نظام بنا دیے کہ وی وی آئی پی شخصیت سیدھا ہیلی کاپٹر سے متعلقہ جگہ پہنچ جاتی ہے اور نیچے تمام ٹریفک معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے۔ نہ ’’ہٹو بچو‘‘ نہ ’’ہوٹر‘‘ نہ ’’روڈ بند‘‘…… لیکن یہاں الامان و الحفیظ……!
صدر اور وزیراعظم تو رہے ایک طرف، صوبائی وزرا، فوج اور بیورو کریسی کے عام سے آفیسرز کے لیے اس طرح روٹ لگتا ہے کہ بارش ہو یا گرمی، عام لوگ سخت تکلیف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سکول کے بچوں کی گاڑیاں حتی کہ ایمبولینس کے لیے راستے بند کر دیے جاتے ہیں…… اور پھر اس سخت ہیجانی کیفیت میں عوام اپنے منتخب حکم رانوں اور سرکاری ملازمین کی شان میں جو کلمات ادا کرتے ہیں، کاش……! ہمارے حکم ران وہ بھی کبھی سنیں۔
ہم نے ایک بار اپنا خاندانی فریضہ سمجھ کر یہ خوب صورت الفاظ سابق وزیرِ اعظم محترم یوسف رضا گیلانی صاحب کی خدمتِ عالیہ میں لکھ کر بھیجے تھے۔ اب معلوم نہیں یہ خط ملتان کے سید زادے کو کسی نے پڑھنے کے لیے دیا بھی یا نہیں……! لیکن آج ہم ایک بار پھر روزنامہ آزادی کے ذریعے اربابِ اختیار کو متوجہ کرتے ہیں کہ حضور کسی دن اپنے لیے روٹ لگوا کر خود بھیس بدل کر ذرا عام عوام میں بس چند منٹ کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ پھر اپنی مقدس سماعت کی قوت سے وہ اعلا تعریفی کلمات بذاتِ خود سماعت فرمائیں، جو آپ کی شان میں عوام مکمل خشوع کے ساتھ بطورِ ’’ہدیۂ تبرک‘‘ پیش کرتے ہیں۔ ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنی شان میں چند الفاظ سماعت فرمائیں اور آپ میں غیرت کا ادنا سا عنصر بھی باقی ہو، تو پھر یا تو آپ مستعفی ہو جائیں گے، یا پھر آپ کو پیدل سفر کرنا پڑے۔ آپ کبھی نہ تو روٹ لگوائیں گے اور نہ آگے ہوٹر والی گاڑی کے ساتھ ’’ہٹو بچو‘‘ کی صدا کے درمیان منزل مقصود تک جانے کی جسارت کریں گے…… لیکن قطعِ نظر اس کے کہ عوام کی اس مکروہ حرکت پر جذبات کیا ہوتے ہیں، کیا آپ اس کو اصول کی بنیاد پر نہیں لے سکتے کہ آخر مجبوری کیا ہے…… یا اس قسم کا پرانے بادشاہوں جیسا رویہ کیوں ضروری ہے؟ ایک ایسا غیر ضروری اور بس کسی ایک شخصیت کی انا کی تسکین کے لیے عام آدمی کا وقت کیوں برباد کیا جائے، اس کی عزتِ نفس کیوں مجروح کی جائے، اور پھر اس فضول حرکت پر ریاست کا خزانہ کیوں لٹایا جاتا ہے؟ بہتر ہے کہ ہمارے قانون ساز ادارے اس پر اسمبلی میں بحث کریں اور فوری طور پر اس پر مناسب قانون سازی کریں۔
یہ سبز کتاب جس کو یہ لوگ ’’گرین بک‘‘ کہتے ہیں، اس کے الفاظ کو درست کرلیں۔ وگرنہ وہ وقت قریب ہے جب عوام آپ کو اُس گرین بک سمیت اُٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ ابھی ماضیِ قریب میں اس کا عملی مظاہرہ لیبیا میں نظر آیا، جب لیبیا کا سابق آمر کرنل معمر قذافی روز یہ سبز کتاب لے کر ٹی وی پر آتا اور عوام کو ڈراتا کہ خاموشی سے گھر بیٹھو، وگرنہ اس گرین بک کے مطابق تم پر مقدمات بن سکتے ہیں…… لیکن عوام نے اُس گرین بک کو اپنے قدموں تلے روند کر قذافی کو خود بغیر کسی مقدمے کے قتل کر دیا۔
دوسرا اب ہمارے عوام میں بھی شعور اور آگاہی کا معیار پہلے جیسا نہیں۔ ایک تو اب کی نئی نسل نسبتاً تعلیم یافتہ ہے اور اوپر سے ای ٹیکنالوجی خصوصاً سوشل میڈیا نے ہر جگہ ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اب لوگ دیکھتے ہیں کہ برطانیہ جیسے امیر ملک کا وزیرِ اعظم عام مسافروں کی طرح ٹرین میں سفر کرتا ہے۔ کینیڈا کا وزیرِ اعظم خود اپنا سامان اٹھا کر بنا پروٹوکول چلتا ہے، تو ہمارے ہاں ایک معمولی کمشنر کے ٹھاٹھ باٹ قدیم رومن بادشاہوں کی طرح کیوں ہیں؟ سو اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے ہوں یا سرکاری افسر، وہ خادم بنیں نہ کہ عوام کو کمی کمین سمجھ کر ان کے آقا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔