سفر کے ساتھ سراسمیگی لکھی ہوئی ہے۔ چاہے آدمی بہت جلدی تیار ہو جائے اور وقت سے بہت پہلے گھر سے نکل کھڑا ہو، لیکن تب بھی حواس پر مکمل قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ جسمانی حرکات و سکنات اور چہرہ پر آتے ہوئے تاثرات سے اس پریشانی اور بے چینی کا کسی نہ کسی حد تک اندازہ ہو ہی جاتا ہے۔ جو گھر سے نکلے ہوئے شخص کے وجود کے کسی اندرونی حصہ میں رہتی ہیں۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات کردیتا ہے، جس سے اس کے اندر چھپے ہوئے خوف کی غمازی ہوتی ہے۔ نامعلوم کا خوف، اجنبی لوگوں کا خوف، نا آشنا جگہوں کا خوف، انہونی باتوں کا خوف، تنہائی کا خوف، کتنی عجیب بات ہے کہ آدمی کھچا کھچ بھری ہوئی بس میں کسی بوری کی طرح ٹھنسا ہوا رکھا ہے، ہر طرف ایک ہجوم ہے لیکن وہ پھر بھی اکیلا ہے۔ ٹرین میں جہاں لوگوں کی کثرت کی وجہ سے لیٹرین جانے کے لیے چند گز کا فاصلہ بھی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، وہاں بھی اکیلا مسافر اکیلا ہی رہتا ہے۔ اسے یہ بھیڑ اسی وقت نظر آتی ہے، جب وہ کسی وجہ سے اس سے ٹکرانے جا رہا ہو، ورنہ تو وہ تنہا ہے اور آخری اسٹیشن تک تنہا ہی رہتا ہے۔ جواز میں یہ احساسِ تنہائی اور بھی شدید ہوجاتا ہے۔ دیگر چیزوں کے ساتھ زمین سے دور ہونے کی دہشت بھی خون میں دوڑنے لگتی ہے۔ ذرا سی غیر معمولی صورت حال اسے حواس باختہ کر دیتی ہے، وہ فوراً زمین پر آنا چاہتا ہے۔ اپنی ماں کے پاس، زمین ماں ہی تو ہے، جنم بھی دیتی ہے، کھلاتی پلاتی بھی ہے اور آخری پناہ کے لیے بھی اپنی آغوش کھول دیتی ہے، سب کے لیے۔
گاڑی ائیرپورٹ کی طرف دوڑ رہی تھی۔ پہلا سگنل بند ملا اور اس کے بعد سب سگنل بند مل رہے تھے۔ ڈیڑھ بجے فلائٹ تھی۔ ایک شائد بج چکا تھا۔ میں قصداً گھڑی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ بہ ظاہر مکمل طور پر پُرسکون ہونے کے باوجود اندر ہی اندر سراسیمگی مجھ پر طاری ہو رہی تھی۔ سفر کے ساتھ لگا ہوا خوف مجھے زیر کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ سگنل پر سگنل بند ملتے رہے اور میرے اندر گالم گلوچ اور سر پھٹول کے کئی واقعات ہوئے، جس کی خبر اسی طرف بھاگتی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے بے شمار لوگوں میں سے شائد کسی کو نہیں ہوئی۔ اس دیر کا ذمے دار بھی میں خود ہی تھا۔ ایک دوست کے اس وقت ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کو میں مختصر کرسکتا تھا۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور بات لمبی ہوتی چلی گئی۔ اصل میں جب بات بے مقصد ہو، تو اسے مختصر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آدمی کو خود کو لٹانے میں، ضائع کرنے میں مزہ آتا ہے۔ بالآخر گاڑی ائیرپورٹ پہنچ ہی گئی۔ گاڑی سے اترتے ہی وہ دوست نظر آیا، جو کافی دیر سے انتظار کر رہا تھا۔ اس نے صبح ٹیلی فون کرکے ذرا جلدی آنے کے لیے کہا تھا، لیکن مجھے حسبِ توقع دیر ہوگئی۔ اسے شائد میں نے فون پر ہی بتا دیا تھا کہ جلدی آنا میرے لیے ممکن نہیں۔ عموماً ہر موقع پر میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو کام جتنا ضروری ہوتا ہے۔ اتنا ہی اس میں دیر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ کیا اس کی وجہ وہ مزہ ہے جو رِسک (Risk) لینے میں آتا ہے۔ ایک سنسنی سی دوڑتی ہے رگ و پے میں۔ جیت اور ہار کے مواقع اگر برابر ہوں، تب ہی کھیل میں مزہ آتا ہے۔ کسی بھی میچ میں جب ایسی صورت حال ہوتی ہے کہ کوئی بھی ٹیم اسے جیت سکتی ہو، تو تماشائیوں میں جان پڑجاتی ہے، وہ ان آخری لمحات کی شدت کو پوری طرح اپنے سارے وجود کے ساتھ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ امید و بیم کی لہروں میں ہچکولے کھاتے ہوئے ایک لمحہ مرتے ہیں، دوسرے لمحہ جیتے ہیں۔ چند ثانیوں کے لیے پلِ صراط کا یہ سفر مزا دے جاتا ہے۔
بورڈنگ کارڈ ملنے کے بعد اس بات کا پتا چلا کہ جہاز پشاور جاتے ہوئے پہلے کوئٹہ رکے گا۔ ٹکٹ لیتے وقت یہ پوچھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ ورنہ اس فلائٹ سے نہ جاتا۔ اس کا مطلب ہے، ڈیڑھ گھنٹے کی جگہ تین گھنٹے۔ پورا ٹائم ٹیبل بدل گیا۔ آدمی کتنا بے اختیار ہے۔ اس بے اختیاری اور کم سوادی کا احساس سب سے زیادہ دورانِ سفر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کسی نے آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دوستوں کے حوالے کر دیا ہے، خالقِ کائنات نے اس بے چارگی کو مدِنظر رکھا ہے، نماز میں رخصت ہے، روزہ میں اختیار ہے۔ حتیٰ کہ مسافر کو زکوٰۃ کے مستحق افراد میں شامل کیا گیا ہے۔ چاہے وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے لیے قرآن نے جو لفظ استعمال کیا ہے، وہ بہترین ہے۔ دنیا کی اور کسی زبان میں بھی مسافر کے لیے اتنا خوب صورت لفظ موجود نہیں ہے۔ ابن السبیل، یعنی "راستہ کا بیٹا۔”
کچھ گھنٹوں، دنوں، مہینوں یا سالوں کے لیے مسافر واقعتاً صرف راستہ کا بیٹا ہوتا ہے، وہ اس کے ساتھ جیسا سلوک کرے، تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے، ایک بیٹا اور کر بھی کیا سکتا ہے؟
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔