بدقسمتی سے جنوبی ایشیا کے جو ممالک برطانیہ کی کالونیاں رہے ہیں، تو یہ برطانوی راج کے طرزِ حکمرانی کے زہر ہی کا اثر ہے جو ہمارے معاشروں میں ایسا سرایت کرچکا ہے کہ آج تک نہ تو اس زہر کا علاج دریافت ہوسکا اور نہ کہیں تریاق ہی ملا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے معاشروں میں جھوٹ، افواہ اور پروپیگنڈا ہمیشہ جیت جاتا ہے اور سچائی ہار جاتی ہے۔ کیوں کہ ہم سچائی پسند معاشرہ جو نہیں اور ان خطوں کے عوام میں سچائی قبول کرنے کا رواج رہا ہے اور نہ سچائی برداشت کرنے کا حوصلہ ہی رکھتے ہیں۔
حکمران، سیاست دان اور حتی کہ دین کی خدمت پر مامور بعض علما بھی جھوٹ بولنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہم بحیثیتِ قوم اور معاشرہ، برطانوی راج کے ڈسے ہوئے ہیں۔ ہم کبھی نہیں سنبھل پائیں گے۔ ہمارا تعلیمی نظام عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ ہماری بنیاد کھوکھلی ہے۔ ہمیں گروہ در گروہ میں منقسم کرکے ایسا ظلم کردیا گیا ہے کہ اس کا کوئی حل فی الوقت تو بظاہر نظر نہیں آرہا۔
قارئین، کورونا ایک عالمی وبا ہے جو اس وقت دنیا میں بری طرح پھیل چکی ہے، لیکن آج تک ہم بحیثیتِ قوم کورونا کے وجود کو بھی تسلیم نہیں کر رہے۔ اسے سازش اور جھوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی ویکسین بھی پروپیگنڈے اور افواہ کی نذر ہو رہی ہے۔ لوگ ویکسین سے بھی خوف زدہ ہیں۔ احتیاطی تدابیر کو تو مذاق ہی سمجھ رہے ہیں۔
قارئین، عصرِ حاضر میں کسی بھی مرض کا بہترین علاج ویکسین ہی ہے، اگر موجود ہو تو۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کا ایسا کوئی شافی علاج موجود نہیں جس سے اس کا سدِ باب کیا جاسکے۔ اسپتال میں صرف مریضوں کو آکسیجن پر لگا دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ آکسیجن ضروری ہوتی ہے جب کہ مختلف اینٹی بائیوٹک ادویہ جو دی جاتی ہیں، درحقیقت وہ کورونا کا علاج ہی نہیں ہوتیں بلکہ مریض کی قوتِ مدافعت چوں کہ کم زور ہوچکی ہوتی ہے، لہٰذا اس کو دوسرے عوارض میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے علاماتی علاج شروع کیا جاتا ہے۔ مختلف اینٹی بائیوٹکس کی بڑی خوراک دی جاتی ہے، تاکہ مریض کو سہارا مل سکے۔ اس مرض کا واحد اور مؤثر علاج ویکسین ہی ہے۔ ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی انتہائی لازمی ہے۔ خدارا، اپنے پیاروں اور بزرگوں پر رحم کیجیے۔ کیوں کہ معاشرہ بزرگوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔
کورونا کی تیسری لہر انتہائی خطرناک صورتِ حال اختیار کرچکی ہے۔ اس سے تو اب بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ اب تک 39 سے زائد بچے بھی کورونا کے سبب جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس وبا کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتِ وقت کو سنجیدگی کے ساتھ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے اسباب کو روکنا ہوگا، ورنہ اموات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔
برسبیلِ تذکرہ، حمزہ فارمیسی کبل چوک کے مالک ثناء اللہ جو کہ میرا دوست ہے، گذشتہ دنوں ان کے والد بزرگوار محترم شاکر اللہ وکیل صاحب جو کہ ایک معزز انسان تھے، بے احتیاطی کا شکار ہوگئے اور کورونا سے لڑتے لڑتے اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ابھی مرحوم کی قبر کی مٹی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ وکیل مرحوم کی زوجہ محترمہ بھی کورونا کے سبب چل بسی، جب کہ یہ دونوں انتہائی طبی نگہداشت کے یونٹ میں وینٹی لیٹر پر بھی کئی دن تک اذیت برداشت کرتے رہے۔ اللہ دونوں کو غریقِ رحمت کرے، آمین!
صحت مندی کے دنوں میں ہمیں عام فیس ماسک لگانا برا لگتا ہے، اسے پسند نہیں کرتے جب کہ بہ امر مجبوری پھر آکسیجن ماسک بھی پہن لیتے ہیں، مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یوں ایک ہفتے کے اندر اندر اس خاندان کے دو بزرگ کورونا وائرس کا شکار ہوگئے۔ اسی طرح بہت سارے گھرانے اسی کیفیت اور غم سے گزر چکے ہیں۔ مزید بھی گزریں گے، اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے تو۔
اے لوگو! اب بھی موقعہ ہے سنبھل جاؤ! جھوٹ، افواہ اور پروپیگنڈوں کا شکار مت بنو۔ روز بزرگوں کے جنازے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہر روز فیس بک پر کورونا کے سبب کسی نہ کسی خاندان کے زندگی کا چراغ گل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، مگر عجیب مخلوق ہیں ہم پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے۔
قارئین، ویکسین کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو سلطنتِ عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کے دور میں جب انگریزوں نے سازش کے تحت سلطان عبدالحمید کے محل میں مدعو یونیورسٹی کے طلبہ کو ہیضہ کا جراثیم ملا پانی پلایا تھا، تاکہ اس طرح سلطان عبد الحمید (جسے انگریز بغض و عناد کی وجہ سے سرخ سلطان بھی کہتے تھے) بدنام ہو جائے، تو سلطان کی بیٹی بھی وہ پانی پی کر ہیضے کی شکار ہوگئی۔ شاہی محل کا اسپتال ہیضہ کے مریضوں سے بھر گیا۔ اس زمانے میں نہ تو نمکول ملا پانی ہوا کرتا تھا اور نہ بذریعہ ورید محلول دینے کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہی موجود تھا۔ سلطان کے علم میں لایا گیا کہ یہ بیماری ہیضہ ہے جسے سازش کے تحت پھیلایا گیا ہے جبکہ اس کا علاج دنیا میں کسی اور ملک کے پاس نہیں، سوائے فرانس کے۔ فرانس کے پاس اس کی ویکسین تو موجود تھی مگر دشمنی کے سبب وہ سلطان کو دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ سلطان ایک خدا ترس اور سچا عاشقِ رسولؐ تھا اور ایک منصف حکمران تھا۔ اس کے ارد گرد بھی بہ یک وقت کئی سازشوں کا جال بچھایا گیا تھا مگر سلطان کے پاس بھی ہر سازش کا توڑ اور ملکوں کی کوئی نہ کوئی کمزوری موجود ہوا کرتی تھی۔ سلطان نے فرانس کے شاہی خاندان کی ایک کمزوری سفیر کو دکھائی جسے دیکھ کر سفیر دنگ رہ گیا اور بہت پریشان ہوا۔ سلطان نے سفیر سے کہا اگر ویکسین مہیا نہیں کی گئی، تو وہ یہ اہم راز دنیا پر افشاں کر دیں گے۔ عالمی شرمندگی سے بچنے کے لیے سفیر نے حاکمِ فرانس کو خبر دی اور یوں بدنامی اور راز افشاں ہونے کے خوف کا نسخہ کارگر ثابت ہوا۔ یوں ہیضہ کی ویکسین لگانے کے بعد ہی تمام مریض شفایاب ہوگئے۔ اگرچہ ملکوں کی سازشوں کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوگا، لیکن یاد رکھیں آپ اس کھیل کو چھوڑ دیں اور جو حقیقت ہے اسے تسلیم کریں۔ کورونا کی ویکسین دریافت ہوچکی ہے جہاں سے ملے لگوا لیجیے۔
مجھے خدشہ ہے کہ آئندہ چند دن یا ہفتے پاکستان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر بزورِ شمشیر کیوں نہ ہوں، مگرحکومت کو نافذ کرانی چاہئیں اور آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنانا اور ویکسین کے عمل کو مزید تیز کرنا ہوگا۔
احتیاطی تدابیر اپنانے میں کسی بھی سختی سے گریز کرنا حکومت کی بڑی ناکامی ہوگی۔ خدارا، جھوٹے پروپیگنڈوں پر کان نہ دھریں اور اپنے بزرگ مرد و خواتین کو ویکسین لگانا شروع کیجیے۔ کورونا کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ویکسین۔ باقی اس کا کوئی علاج نہیں۔ آکسیجن ضرورت جب کہ اینٹی بائیوٹکس دینا مجبوری ہے۔ احتیاط لازمی ہے مگر ہم کرتے نہیں۔ لہٰذا ہم نے تقدیر کو خود پر غالب کردیا ہے۔ چند دنوں بعد ہندوستان کو لوگ بھول جائیں گے، مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ احتیاطی تدابیر اپنا لیجیے، یا تو اپنے لیے عام فیس ماسک پسند کریں یا آکسیجن ماسک، مرضی آپ کی!
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔