بچوں کے نام بارے ہمارا عمومی رویہ

Blogger Zaheer ul Islam Shahaab

میری پیاری بھانجی، ’’آئزل……!‘‘
مجھے نہیں پتا ’’آئزل‘‘ کس زبان کا لفظ ہے اور ایسا کوئی لفظ ہے بھی کہ نہیں۔ اِیزل (Easel) البتہ انگریزی کا لفظ ہے اور اس کے معنی تین پاؤں والا وہ سٹینڈ ہے جو ایک آرٹسٹ مصوری کے دوران میں استعمال کرتا ہے۔
ظہیر الاسلام شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
فتوے عنایت فرمانے والی ایک ویب سائٹ پر کسی نے پوچھا ہے کہ اِیزل نام رکھنا کیسا ہے؟ جواب میں لکھا گیا ہے کہ یہ نام معنی کے اعتبار سے ٹھیک نہیں (ظاہر ہے آرٹ سے نسبت جو ہے) اور اس کی بجائے قدیم عربوں کے عرب نام رکھنے کی سفارش کی ہے۔
کچھ جاننے والوں نے بچوں کے لیے نام تجویز کرنے یا کچھ ناموں پر کومنٹ کرنے کا کہا، تو مَیں نے بچوں کی مادری زبان میں کچھ نام تجویز کرلیے۔ توقع کے عین مطابق اُن پر ناگواری کا اظہار کیا گیا اور کسی اور زبان کے الفاظ کو بہت فخر کے ساتھ بروئے کار لایا گیا۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ مقامی لوگ اب تک باہر سے آئی ہوئی حملہ آور اقوام کے مقابلے میں اس قدر احساسِ کم تری کا شکار کیوں ہیں اور اُنھیں یہ سادہ سی بات سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ نام فقط پہچان کا ایک ذریعہ ہے اور اگر آپ کے نام سے آپ کی زبان، پس منظر، ثقافت اور تاریخ کا پتا چل سکے، تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اجتماعی شعور
سوشل میڈیا ڈی ٹاکس
ہمارے گھر اور سکول بچوں کے لیے عقوبت خانے ہیں
فرق صاف  ظاہر ہے
لاؤڈ سپیکر والی نفسیات
ہمارا سب سے بڑا نقصان ’’برین ڈرین‘‘
آپ اپنے اِرد گرد دیکھیں۔ مقامی زبان میں جنھوں نے نام رکھے ہیں، اُن کا تعلق عموماً سماج کے سب سے غریب طبقے سے ہوگا۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران میں اُن کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہوگی۔ المیہ یہ ہے کہ اس حبس زدہ سماج میں زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں رہنے دیا گیا ہے، جسے مابعدالطبیعیاتی نہ بنایا گیا ہو……!
میرا خیال ہے کہ ایک عارضی نام رکھنے کے بعد بچوں کا دائمی نام بچوں ہی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بچے اپنی انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتے ۔ اُن کا پورا پورا حق ہے کہ وہ زندگی کا یہ اہم فیصلہ خود کریں اور مجھے بھرپور یقین ہے کہ اُن کا فیصلہ اُن کے بڑوں کے فیصلے سے کہیں بہتر ہوگا۔
اُمید ہے آنے والے دور میں اپنے لوگ استعمار کے پروپیگنڈوں کو سمجھ لیں گے، نہ تو کسی تہذیبی نرگسیت کے شکار ہوں گے، اور نہ احساس کم تری کے۔ مزید یہ کہ ثقافت اور مابعدالطبیعیات میں فرق کرنا بھی سیکھ جائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے