جس معاشرے میں ظلم اور جبر حد سے بڑھ جائے، تو لوگوں کی اکثریت ظالم کی طرف دار بن جاتی ہے۔ اِس وجہ سے نہیں کہ اُنھیں ظلم پسند ہوتا ہے، بلکہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اکثریت بزدل ہوتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اِس طرح سے ظالم کے ظلم سے اُنھیں نجات مل جائے گی، جب کہ ظلم کرنے والے تو ایسے وحشی درندے بن چکے ہوتے ہیں، جن کو مظلوموں کے لہو کی چاٹ لگ چکی ہوتی ہے۔ جب بھی اُن کی پیاس بھڑکتی ہے، تو پھر جو بھی سامنے آ جائے، اُن کی دست برد کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے بزدل معاشرے میں ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے والا مظلوموں کا ہیرو نہیں ہوتا، بلکہ اُن کی لعن طعن اور طنز و نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ لوگ ظالم کو دل میں تو برا سمجھتے ہیں، مگر عملی طور پر نہ خود ظلم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں اور نہ بغاوت کرنے والے کی حمایت ہی کرتے ہیں۔ ظلم سہنا در اصل ظالم کی طرف داری کرنے کے مترادف ہے۔ وہی معاشرے زندہ اور سربلند رہتے ہیں جو اپنی انا، خودی، غیرت اور عزت کی حفاظت کرتے ہیں۔ بزدلوں کی نہ تو اہمیت ہوتی ہے اور نہ دنیا میں ان کی کوئی عزت ہی ہوتی ہے۔ بزدلی کو مصلحت کا نام دینے والے کبھی عزت دار نہیں کہلوا سکتے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ہم نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت کرکے مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی موثر احتجاج نہیں ہوپاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن سے احتجاج کا خطرہ ہوتا ہے، اُنھیں سستے داموں چپکے سے نواز دیا جاتا ہے۔ دیکھا جائے، تو ہم میں سے ایک بڑی تعداد پرلے درجے کی منافق ہے، جو ظلم سے نفرت مگر ظالم کی طرف داری کرتی ہے۔
ایک گاؤں میں ڈاکو داخل ہوئے اور وہاں کی تمام عورتوں کی عصمت دری کر دی…… مگر ایک خاتون ایسی تھی کہ جب اُس کے گھر میں ڈاکو داخل ہوا، تو اُس نے اُس ڈاکو کو قتل کر دیا اور سر کاٹ دیا۔ واردات کے بعد جب تمام ڈاکو اُس گاؤں سے چلے گئے، تو تمام عورتیں اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سمیت گھروں سے نکل آئیں اور روتے ہوئے ایک دوسرے کو روداد بیان کرنے لگیں۔ اتنے میں وہ بہادر خاتون اپنے گھر سے باہر نکلی۔ عورتوں نے دیکھا کہ اُس کے گھر میں داخل ہونے والے ڈاکو کا سر اُس نے ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے اور نہایت غیرت و خودداری کے ساتھ وہ ان کی طرف آنے لگی۔ اُس خاتون نے بلند آواز سے کہا کہ کیا تم نے سوچ لیا تھا کہ وہ مجھے مارے بغیر میری عزت تار تار کر سکتا تھا؟
گاؤں کی عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ اُسے قتل کر دیا جائے، تاکہ اُن کی عزت بچی رہے اور اُن کے شوہر کام سے واپس آنے پر اُن سے یہ نہ پوچھیں کہ تم نے اس کی طرح مزاحمت کیوں نہیں کی؟ پھر اُنھوں نے اُس بہادر خاتون پر حملہ کر کے اُسے قتل کر دیا۔ اُنھوں نے ذلت کو زندہ رکھنے کے لیے عزت کا قتل کر دیا۔
کچھ یہی حال آج ہمارے معاشرے کے چور، حرام خور، جھوٹے اور کرپٹ لوگوں کا ہے۔ وہ ہر عزت دار اور خوددار شخص کو مارتے ہیں۔ غریب اور سفید پوش کو حقیر جانتے ہیں اور استحصال کرتے ہیں، تاکہ وہ ان کی کرپشن، جھوٹ، چوری اور حرام خوری کے خلاف بات نہ کرسکیں۔
اصل میں یہ لوگ اپنی عزتیں گنواچکے ہیں اور عزت داروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
آج دوسروں کو انصاف دینے والے محترم جج صاحب کی بیوی اپنی کم سن ملازمہ کو تشدد کرکے اس کی ٹانگ اور بازو توڑ دیتی ہے۔ اُس بے چاری کے زخمی سر میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ وہ تڑپ تڑپ کر ہسپتال میں جان دے دیتی ہے، مگر سول سوسائٹی خاموش تماشائی بنی منھ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ موم بتیاں جلا کر انسانی حقوق کا علم بلند کرنے والی آنٹیاں کسی گہرے کنوئیں میں اُتری ہوئی ہیں۔ اسکینڈلوں کے متلاشی میڈیا کے اس قتل پر بات کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے لمبی تان کر سو رہے ہیں اور غریبوں کے ہم درد سیاست دان اس معاملے میں گونگے بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں۔
گویا ’’جج صاحب کی سرکار میں بندہ و صاحب و غنی و لبرلز سبھی ایک پیج پر ہیں‘‘ کہ طاقت کو سلام ہے۔
یونیورسٹیوں میں حوا کی بیٹیاں لُٹ رہی ہیں۔ سمجھوتا نہ کرنے والی عزت دار بیٹیاں ’’مبینہ خودکُشیاں‘‘ کر رہی ہیں، مگر اُن مظلوم بیٹیوں کی داد رسی کی بجائے طاقت ور ہاتھ ظالموں کو بچانے کے لیے حرکت میں آگئے ہیں۔ سیاست، طاقت اور اقتدار مل کر درندوں کے پشت پناہ بن گئے ہیں۔
ہمارے یہاں کا ہر دستور نرالا اور ہر چلن انوکھا ہے۔ ایمان دار سرکاری ملازم ہو، تو کھڈے لائن، تاجر ہو تو دیوالیہ، عزت دارہو تو کردار کُشی، کسی لیڈر کی اقربا پروری اور ناجوازی کو سامنے لایا جائے، تو حق اور سچ سامنے لانے والے کے خلاف اس کرپٹ لیڈر کے پیروکاروں کا جتھا مہم جوئی شروع کر دیتا ہے۔
آپ جب کہیں ایسے لوگ دیکھیں جو چور، جھوٹے، حرام خور، فراڈیے اورکرپٹ کا ساتھ دے رہے ہیں، تو سمجھ جائیں کہ یہ اُنھی عورتوں کے پیروکار ہیں، جنھوں نے اپنی جھوٹی عزت کی خاطر باحیا اور غیرت مند عورت کی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
مَیں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہوکر
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔