اُمید ہے مضمون کی شہ سرخی دیکھ کر اساتذہ اور والدین مجھے کاٹنے نہیں دوڑیں گے۔ کیوں کہ اس جرم میں، مَیں بھی بہ حیثیت ایک والد اور استاد شریک ہوں، تاہم شریکِ جرم ہوکر مخبری کرنے سے نہیں کتراؤں گا۔
نفسیات کی ہر شاخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کی زندگی میں ابتدائی 10، 12 سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان میں ابتدا کے 5 سال تو نہایت اہم ہوتے ہیں۔ یہیں سے زندگی کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ یہیں سال ذہنی اور سماجی ذہانت کو سدھارنے اور نکھارنے کے سال ہوتے ہیں۔ یہیں سے جذباتی اور عقلی ذہانت کی نشو و نَما شروع ہوجاتی ہے۔ یہیں سے رویّے بن جاتے ہیں، جو زندگی بھر ساتھ رہتے ہیں۔ ان ابتدائی سالوں میں بچوں کی خصوصی نگہ داشت اور تربیت کے لیے جو لائحہ عمل تعلیم و تربیت کے شعبے میں ترتیب دیے جاتے ہیں، اُس عمل کو انگلش میں "Early Childhood Development” (ECD) کہا جاتا ہے جس کے اُردو معنی شاید ’’بچپن کی ابتدائی دیکھ بھال/ ترقی‘‘ بن جاتے ہیں۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
ہم بڑوں کے جتنے بھی جذباتی، سماجی ذہانت، تعلقات، رویے بگڑے ہیں، اُن کی وجہ یہی بچپن کا عقوبت خانہ ہے جو ہمیں گھر، سکول ، مدرسہ اور گلی محلوں میں ہر سُو میسر ہے۔ ہمارے ہاں تربیت بھی عجیب معنی رکھتی ہے۔ اس کو اتنا محدود کیا گیا ہے کہ اس لفظ سے ہی نفرت ہونے لگی ہے۔ اس سے مراد یہی لیا جاتا ہے کہ بس بچے کوہر قسم کی خوشی سے دور رکھ کر ایک خاص نظریے پر پروان چڑھایا جائے، جہاں اُس کی ذہنی و جذباتی مسائل کو چھوڑ کر اُس کو اخلاقیات کے نام پر مزید عقوبت سے گزارا جائے۔
ہمارے ہاں تعلیم یعنی خواندگی براہِ راست 4، 5 سالوں سے شروع ہوجاتی ہے۔ سکول میں بچے کو داخل کرکے اس کو فوری طور پر لکھائی اور پڑھائی پر لگادیا جاتا ہے۔ اس طرح کی فوری طور پر پڑھائی اور لکھائی بھی ایک تشدد ہی ہے۔ ان 4، 5 سالوں سے پہلے بچے کے ساتھ کیا کرنا ہے اور اُس کو اُس کے بعد ایسے ہنر یعنی لکھائی اور پڑھائی پر کس طرح منتقل کرنا ہے، اُس کی طرف نہ ہمارا تعلیمی نظام سوچتا ہے اور نہ شان دار گھریلو نظام۔
سکول پہنچتے ہی بچے کو سکول سے نفرت ہوجاتی ہے۔ اپنے بچپن کو یاد کیجیے کہ کس طرح ہم طوفانوں، زلزلوں اور سیلابوں کی دعائیں کرتے تھے، تاکہ اُن کی وجہ سے سکول بند ہوجائیں اور ہماری جان چھوٹ جائے۔
کہا جاتا ہے کہ سکولوں میں بچوں پر جسمانی تشدد یا سزا بند ہے، مگر جو تشدد زبان، اشاروں، آنکھوں چہرے اور ڈرانے دھمکانے کی صورت میں کیا جاتا ہے، اُس پر کسی نے سوچا ہے؟
ہماری ثقافت میں لاٹھی کو جتنا تقدس دیا جاتا ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ ہمیں باور کرایا گیا ہے کہ لاٹھی ہی بچوں کو سنوار سکتی ہے۔ ہمیں باور کرایا گیا ہے کہ جو بچہ سکول آتا ہے، اُس کا ذہن خالی سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ اُس سلیٹ پر کچھ بھی لکھیں!
کیا ہمارے پرائمری سکولوں کے اساتذہ، منتظمین اور جائزہ لینے والوں کو معلوم ہے یا ان کا اپنا رویہ ایسا ہے کہ بچوں کی جذباتی اور سماجی ذہانت کو کس طرح نکھارا جائے!
کیا کبھی والدین نے سوچا ہے کہ اُس کے بچے کی ایسی کیا ضروریات ہیں!
والدین کو بس یہی پڑی ہے کہ اُن کا بچہ رٹا لگا کر کچھ خواندگی سیکھ لے اور یوں اُس کو دوسرے والدین کے بچوں کے مقابلے میں قابل ہونا چاہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
دنیا کی نمبر ون تعلیم یافتہ قوم  
لندن حصولِ تعلیم کے لیے بہترین شہر کیوں ہے؟ 
سی ایس ایس رزلٹ، تعلیمی زبوں حالی کا منھ بولتا ثبوت  
سوویت یونین کے تعلیمی وظائف 
مولوی بادشاہ گل، سوات کوہستان میں رسمی تعلیم کے بانی 
سکول کے اندر اس نظام کے علاوہ بھی آپ سکول کی عمارت اور طرزِ تعمیر کو دیکھیں، تو کیا یہ کسی عقوبت خانے سے کم ہوتے ہیں؟ پرائمری سکولوں کی عمارت میں دو کمرے چھے جماعتوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ایک ہی کمرے میں مختلف عمر اور جماعت کے بچوں کو بٹھایا جاتا ہے۔ اُن سکولوں کی عمارت بھی ایسی بنوائی جاتی ہے کہ پوری کرپشن مافیا اُس میں شریک ہوکر سب سے ناقص کام کرتی ہے۔ اوپر ایک ٹین کی چادر ڈال کر اور نیچے لکڑی کی سیلنگ کرکے ایسی شان دار عمارت بنائی جاتی ہے کہ وہ گرمیوں میں انتہائی گرم اور سردیوں میں انتہائی سرد رہتی ہے۔ بچوں کو عموماً ٹاٹ پر بٹھایا جاتا ہے، یا پھر ایسی سخت کرسیوں پر پورا دن بٹھایا جاتا ہے کہ بے چاروں کے تو کولہے ہی ٹیڑھے ہوجاتے ہیں۔
سرد علاقوں میں بچوں کو ان عقوبت خانوں میں نومبر اور دسمبر کی سردی سے گزارا جاتا ہے۔ پہلے سکولوں میں بچے روزانہ گھر سے ایک لکڑ ساتھ لاتے اور اس طرح سکولوں کو گرم رکھا جاتا۔ ایک اچھی روایت تھی ہمارے ان سرد علاقوں میں پر کچھ اساتذہ نے اس لکڑی سے گھر چلانے شروع کیے اور یوں یہ سلسلہ بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا۔
سکول میں بچے سہمے سہمے رہتے ہیں۔ ہنسنا بچوں کے لیے منع ہے اور جو ہنس بھی لے، تو وہ ڈانٹ کھاتا ہے ۔ جو استاد کی ڈانٹ سے نہ روئے، اُس کو مزید ڈانٹ پلائی جاتی ہے کہ بھئی، رونا ہمای ثقافت کا جز لاینفک ہے۔ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ سنجیدہ ہونے کا مطلب ہمارے ہاں منھ بنانا اور رونا ہے۔
ہمارے ہاں سکولوں کے لیے زمین لوگوں سے مفت مانگ لی جاتی ہے۔ گویا ریاست ہم پر کوئی بڑا احسان کرتی ہے، جو زمین جتنی گئی گزری اور گاؤں والوں کی پہنچ سے دور ہو، اُس کو سکول کے لیے دیا جاتا ہے۔ ہاں، جو زمین اچھی اور عمدہ ہو، وہاں کوئی عسکری چھاؤنی یا ان لوگوں کے لیے کوئی عمارت بنائی جاتی ہے۔
کیا ہمارے سرکاری سکولوں کی عمارتیں ہمارے تھانوں اور چھاؤنی کی عمارات کا مقابلہ کرسکتی ہیں؟ ان اشرافیہ نے اپنے لیے سکول بھی الگ بنائے ہیں۔ چاہے آرمی پبلک سکول کے نام سے ہوں، بیکن ہاؤس کے نام سے ہوں یا کیڈیٹ کالج کے نام سے۔ ایسے میں یہ سرکاری سکول اور گلی محلوں کے نجی سکول عقوبت خانے ہی رہ جاتے ہیں، جن پر بھی عسکری لوگ اپنے پالے ہوئے کتوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لیے بار بار آتے ہیں، تو سالوں قبضہ کرلیتے ہیں۔
پاکستان کے چند ایک ایلیٹ سکول چھوڑ کر یہاں کہیں بھی سرکاری سطح پر کوئی "ECD” کا پروگرام نہیں۔ یہ پروگرام عموماً تین سال کے بچوں کے لیے ہر محلے میں شروع کیے جاتے ہیں، جہاں بچے آیندہ 4 سالوں تک رہتے ہیں اور ان کی ذہنی، سماجی اور جذباتی تربیت کے ساتھ آخری سال میں ان کی مادری زبان اور دوسری زبان میں خواندگی شروع کی جاتی ہے۔ ان مراکز میں میں بچوں کے لیے کھیل کود کے کھلونے، پلے لینڈ، پالتو پرندے اور جانور بھی رکھے جاتے ہیں۔ والدین کو ان مراکز میں باربار بلایا جاتا ہے اور ان کو ان کے بچوں کی خاص ضروریات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ان مراکز میں بچوں کے ذہنی و جسمانی صحت کے ماہرین (Pediatrician) کو رکھا جاتا ہے، تاکہ وہ بچوں کی صحت کی مسلسل نگرانی کرسکیں۔ اس ’’ای سی ڈی‘‘ کے بعد 7 سالوں کی عمر میں بچوں کو کسی پرائمری سکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور وہ باقاعدہ خواندگی کا عمل سیکھنے لگ جاتا ہے۔
پاکستان میں گلگت بلتستان کے بعض علاقوں میں ایک دو غیر سرکاری اداروں نے ایسے مراکز قائم کیے ہیں جہاں کافی حد تک والدین اور ان مراکز کے دیکھ بھال کرنے والوں (Caretakers and Caregivers) کے بیچ مسلسل رابطے کی وجہ سے بچوں کی تربیت کافی حد تک بہتر کی جاتی ہے۔ بچوں کی اس اتبدائی ذہنی، جذباتی اور سماجی تربیت میں والدین کے علاوہ دادا، دادی، نانا اور نانی کے ساتھ بچے کے بڑے بہن بھائیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس لیے ان رشتہ داروں کو بھی ان مراکز سے منسلک کیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک غیر ملکی دورے کے دوران میں وہاں چند ایسے مراکز اور سکولوں کا دورہ بھی کیا۔ جس مرکز یا سکول گیا، خود کو دوش دیتا رہا۔ لوگوں سے سوالات پوچھے، مگر خود کڑھتا رہا۔ خود کو ہی مجرم پایا۔
ہم نے یہاں بحرین میں سکول بنایا تھا، جو کافی حد تک اس سلسلے سے منسلک تھا۔ اب ایک بار پھر سوچ رہے ہیں کہ اس سکول سے بھی الگ اور بہتر طرح کے کوئی "Early Childhood Development Centers” بنائے جائیں۔ اس میں بہت محنت کرنی پڑے گی، تاہم خواہش ہے ایسا ہو۔
دیگر لوگ بھی اگر ایسا کوئی نظام بنانا چاہتے ہیں، تو ہم تربیت اور اس طرح کی مدد کے لیے تیار ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔