اساتذہ بچے کی شخصیت نکھارنے اور سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ استاد ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو کہ بچے کو دنیا و آخرت کے لئے تیار کرتا ہے۔ دنیا میں ہونے کا مقصد سکھاتا ہے۔ مشکلات اور امتحانات میں سرخرو ہونا سکھاتا ہے۔ جب ایک طالب علم سکول میں داخل ہوتا ہے، تو وہ صرف ایک ادارہ اور اس میں تیار کردہ کورس پڑھنے کے لئے نہیں جاتا بلکہ زندگی گزارنے کا فن سیکھنے جاتا ہے۔ پہلے پہل والدین قصے کہانیوں کے ذریعے بچوں کو اساتذہ کی اہمیت کا درس دیتے تھے۔ اپنے زمانے کے اساتذہ کا تذکرہ کرکے اساتذہ کی عزت بڑھاتے تھے، لیکن آج کل ’’خود اعتمادی‘‘ کے نام پر ایک طرح سے بچوں کو بگاڑا جا رہا ہے۔ان کو بتایا جاتا ہے کہ ’’اگر استاد نے ڈانٹا یا ٹوکا تو ہمیں بتانا، استاد سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ تو بس ایک ملازم ہے، جس کا کام صرف بچوں کو پڑھانا ہے۔‘‘ بدقسمتی سے والدین اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ایسا کرنے سے بچے میں ’’خود اعتمادی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ وہ نڈر بن جاتے ہیں۔ اور بچوں کے بگاڑ میں یہ عمل کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ بعد میں وہ بچے اتنا بگڑ جاتے ہیں کہ خود اپنے والدین کی بھی نہیں سنتے۔ اور واقعی ’’نڈر‘‘ بن کے جاتے ہیں۔
نجی تعلیمی اداروں میں عموماً اور سرکاری میں خصوصاً والدین کا یہ رویہ ہوتا ہے کہ جیسے بھی ہو، بس اساتذہ کی معمولی سی غلطی پکڑی جائے۔ حالاں کہ کوئی بھی استاد ایسا نہیں جو اپنے طلبہ کو بلاجواز ڈانٹے یا سزا دے۔سکول یا درس گاہ تو ایک طرح سے تربیت گاہ ہوتی ہے اور ایک اچھی تربیت گاہ کا محور نظم و ضبط ہی ہوتا ہے۔ اگر اس کی کوئی خلاف ورزی کرے، تو وہ ضرور سزا کا مرتکب ہوتا ہے۔ سکول جانے کا مقصد صرف کتابوں کا رٹا لگانا نہیں ہوتا بلکہ تمیز، ادب اور شرافت بھی سکھانا ہوتا ہے۔
اس طرح آج کل یہ بات عام ہے کہ نئی نسل خراب ہو رہی ہے۔ آنے والے وقتوں میں ذمہ داریوں کا کیسے مقابلہ کریں گے؟ تو میرا سوال ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ان کے بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس میں اساتذہ کا ہاتھ ہے یا پھر والدین یا خود طالب علموں کا؟ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے، تو بچوں کے بگاڑ میں والدین کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ جب ایک بچہ والدین کی بات پر عمل نہیں کرتا اور ان کی ہر بات مانی جاتی ہے، تو اس کے بعد بدقسمتی سے اگر اساتذہ بھی ان کی رہنمائی نہ فرمائیں، تو پھر اس بچے کو راہِ راست پر لانا ایک بد مست ہاتھی کو قابو کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔’’خود اعتمادی‘‘ کے بجائے اس بچے میں خود سری کا عمل شروع ہوجاتا ہے اورخود سر بچے اساتذہ تو کیا والدین کے بھی نہیں سنتے۔ اگر شروع ہی سے اس کی تربیت صحیح معنوں میں کی جائے، نہ زیادہ سخت رویہ اپنایا جائے اور نہ ہی بہت نرم، تو تب جا کے وہ ایک قابل اور لائق بچہ بن کر مستقبل کیلئے تیار ہوتا ہے۔ الغرض، بچوں کی تربیت نفسیاتی طور پر کی جانی چاہئے ۔
اس طرح اگر بات اساتذہ کی ذمہ داریوں کی کی جائے، تو اگر ایک طالب علم کے والدین بار بار بلانے پر سکول آنے کی زحمت نہیں کرتے، تو اُنہیں کیسے علم ہوگا کہ اساتذہ کی ذمہ داری کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں؟ دوسری طرف معاشرے کے مجموعی رویے پر بھی افسوس ہوتا ہے۔ قابل اور لائق اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ آج اس تحریر کی وساطت سے ایک بار پھر لکھ رہا ہوں کہ بچوں کی تربیت صرف اور صرف اساتذہ کا کام نہیں ہے۔ خصوصاً سرکاری سکولوں کے طلبہ والدین کی طرف سے عدم اعتمادی کا شکار ہوکر سکول آتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں اساتذہ اور والدین دونوں کو مل بیٹھ کر کام کرنا ہوگا۔ لیکن حالات اس کے برعکس جا رہے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ بچوں کو استاد کی قدر و منزلت بتائیں۔ ان کو یہ باور کرایا جائے کہ اساتذہ صرف ملازم نہیں بلکہ ان کے روحانی والدین ہیں اور ان کے مستقبل کی کامیابی انہی اساتذہ سے جڑی ہوئی ہے ۔