برطانیہ میں ایک ادارہ "QUACQUARELLI SYMONDS” (کیو ایس) کے نام سے قائم ہے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں ہائیر ایجوکیشن کے فروغ اور ذہین طلبہ کی رہنمائی کے لیے 1990ء سے سرگرمِ عمل ہے۔ اس ادارے کے ماہرینِ تعلیم عالمی سطح پر یونیورسٹیز کے معیارِ تعلیم کی جانچ پڑتال کر کے ان کی درجہ بندی بھی کرتے ہیں اور گاہے بہ گاہے دنیا کی بہترین یونیورسٹیز کی فہرست ترتیب دیتے ہیں۔
اس ادارے نے گذشتہ دنوں ایک عالمی جائزے کے بعد ایسے شہروں کی ایک فہرست جاری کی جو اعلا تعلیم کے حصول کے لیے بہترین شہر قرار دیے گئے۔ اس درجہ بندی میں سب سے اوپر برطانوی دارالحکومت کا نام ہے، یعنی لندن دنیا بھر میں حصولِ تعلیم کے لیے سب سے بہترین شہر ہے۔
اس فہرست میں صرف اُن شہروں کو شامل کیا جاتا ہے جہاں عالمی معیار کی کم ازکم دو یونیورسٹیز موجود ہوں اور جہاں اوورسیز طلبہ کو ہر طرح کا تحفظ اور ملازمت کے مواقع میسر ہوں۔
لندن کو اس رینکنگ میں اس لیے بھی پہلا درجہ ملا ہے کہ اس شہر میں دنیا بھر سے آنے والے طلبہ کو بہت شان دار ملٹی کلچرل ماحول دست یاب ہے اور یہاں دنیا کی بہترین لائبریریز سے لے کر ہر ملک کے روایتی کھانوں کے ریستوران اور مختلف قوموں کی تہذیب و ثقافت کے رنگ موجود ہیں۔
تعلیم کے لیے دنیا کے دس بہترین شہروں میں بالترتیب لندن (برطانیہ)، میونخ (جرمنی)، سیول (جنوبی کوریا)، زیورچ (سوئٹزرلینڈ)، میلبرن (آسٹریلیا)، برلن (جرمنی)، ٹوکیو (جاپان)، پیرس (فرانس)، سڈنی (آسٹریلیا) اور ایڈنبرا (برطانیہ) کے نام شامل ہیں۔ ہر سال ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ طالب علم حصولِ تعلیم کے لیے برطانیہ آتے ہیں جن میں سے ڈیڑھ لاکھ کا تعلق یورپ کے مختلف ملکوں سے جب کہ باقی کا تعلق دنیا کے دیگر ممالک سے ہوتا ہے۔
برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے سب سے زیادہ طالب علم چین سے آتے ہیں۔ گذشتہ سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ چینی طلبہ و طالبات نے اعلا تعلیم کے حصول کے لیے یونائیٹڈ کنگڈم کی مختلف یونیورسٹیز میں داخلہ لیا۔ اوورسیز سٹوڈنٹس میں دوسرا نمبر بھارتی طالب علموں کا ہے۔ گذشتہ برس ساڑھے چوراسی ہزار سے زیادہ بھارتی طلبہ پڑھنے کے لیے برطانیہ آئے۔ اسی طرح نائیجیریا کے 21305 اور امریکہ کے 19220 طالب علم اعلا تعلیم کے لیے برطانوی تعلیمی اداروں میں داخل ہوئے۔
اس فہرست میں پاکستان کے اوورسیز سٹوڈنٹس چھٹے نمبر پر ہیں۔ گذشتہ سال تقریباً 13 ہزار طالب علم پاکستان سے اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ آئے۔ سب سے زیادہ اوورسیز طالب علم یونیورسٹی کالج لندن میں زیرِ تعلیم ہیں جس کے بعد بالترتیب یونیورسٹی آف مانچسٹر، یونیورسٹی آف ایڈنبرا اور کنگز کالج لندن کا نمبر آتا ہے، جہاں غیر ملکی طلبہ وطالبات کی سب سے زیادہ تعداد داخلہ لیتی ہے۔
اوورسیز طالب علموں میں سب سے مقبول مضمون ’’بزنس اینڈ ایڈمنسٹریٹو اسٹڈیز‘‘ ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران میں 1 لاکھ 27 ہزار سے زیادہ طالب علموں نے اس مضمون میں برطانیہ کی مختلف یونیورسٹیز سے اعلا تعلیم حاصل کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو غیر ملکی طلبہ یوکے میں اپنی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں، ان میں سے بیشتر کو برطانوی اداروں اور فرمز میں ہی ملازمت کے مواقع میسر آ جاتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور انڈیا کے طلبہ کی اکثریت برطانیہ میں ملازمت ملنے پر واپس اپنے وطن نہیں جاتی اور ان ذہین اور محنتی طلبہ کی قابلیت اُن کے اپنے ملک کے کام آنے کی بجائے برطانیہ کے کام آتی ہے۔
دارالحکومت لندن چوں کہ تجارتی اور اقتصادی اعتبار سے دنیا کا ایک اہم ترین شہر ہے اور یہاں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز کے دفاتر اور برانچ موجود ہیں جو ہر شعبے کے قابل اور ذہین لوگوں کو شان دار ملازمتوں کی پیشکش کرتی ہیں۔ ایسی ملازمتوں کے پیکیج کا غریب ملکوں کے ذہین پروفیشنل صرف خواب میں ہی تصور کرسکتے ہیں۔ ایسی ملازمتیں ملنے پر پروفیشنل کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ وہ طلبہ جو اس ارادے سے اعلا تعلیم کے لیے برطانیہ آتے ہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اپنے وطن جا کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے، وہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد کم ہی پلٹ کر واپس جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ:
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ اور خوش حال ملکوں کی یہ پالیسی ہے کہ وہ امیگریشن پوائنٹ سسٹم اور ہائیر ایجوکیشن کے نام پر دنیا بھر سے قابل اور ذہین لوگوں کو اپنے ملکوں میں بلا کر ان کو سازگار ماحول فراہم کرتے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے وسائل اور ٹیکنالوجی میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور برین ڈرین کے نتیجے میں ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں پروفیشنل اور باصلاحیت لوگوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ جو پروفیشنل اور ذہین طالب علم ایک بار چند سال لندن یا کسی اور ترقی یافتہ شہر میں گزار لیتے ہیں، وہ یہاں کے سسٹم، معمولات اور سہولتوں کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ پھر ان کے لیے واپس اپنے وطن جا کر پس ماندہ ماحول میں کام کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اب یہ تشویش ناک رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
پاکستان سمیت تیسری دنیا کے دیگر کئی ممالک کے کرپٹ اور نااہل سیاست دانوں اور حکم رانوں نے اپنے عوام کی زندگی کو اس قدر مشکل اور دشوار بنا دیا ہے کہ اب ان ملکوں کے مجبور لوگوں کی بڑی تعداد چاروناچار ہجرت کر کے خوشحال ملکوں میں آباد ہونے کی خواہش مند ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض اوقات تو وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اور اپنی جمع شدہ پونجی جعلی ایجنٹوں کے حوالے کر کے بے نام دیاروں کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ امیگریشن واچ کے ایک جائزے کے مطابق ہر سال سیکڑوں غیر قانونی تارکینِ وطن جنگلوں اور صحراؤں میں بھوک اور پیاس کی شدت سے مارے جاتے ہیں یا پھر سمندر کی لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جن کرپٹ اربابِ اختیار کی وجہ سے پاکستان جیسے وسائل سے بھرپور کئی اور ممالک پس ماندگی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ان ملکوں کے دور اندیش اور عیار سیاست دانوں اور حکم رانوں نے ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، تاکہ بوقتِ ضرورت ان کی ہجرت کا سفر آسان ہو جائے۔ معیارِ تعلیم ہو یا معیارِ زندگی لندن ایسے شہر ہمیشہ سے ذہین طلبہ اور متمول لوگوں کے لیے پُرکشش رہے ہیں۔ ہمارے جو فریبی سیاست دان پاکستان کے شہروں کو لندن اور پیرس بنانے کے جھوٹے دعوے کرتے رہے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے شہروں کو صرف اس قدر پُرامن اور رہنے کے قابل بنا دیں کہ وہاں کے رہایشی اور اپنے دیس کی مٹی سے محبت کرنے والے عوام انھیں چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں اور اپنے پیاروں سے دور نہ ہوں۔ غریب ملکوں سے ذہین، محنتی اور قابل لوگوں کی خوش حال ملکوں کی طرف ہجرت اور نقلِ مکانی کو نہ روکا گیا، تو پس ماندہ ملکوں میں صرف انتہا پسندوں، بددعائیں دینے والوں، کرپٹ اور بدکردار سیاست دانوں، ضعیف الاعتقادوں، جعلی حکیموں اور جاہل پیروں اور عاملوں کی بالادستی یوں ہی قائم رہے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔