پاکستان سمیت دنیا بھر میں 3 دسمبر معذوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد معذور افراد کے وقار، عزتِ نفس، ان کے حقوق اور ضروریات کو سمجھنا، معاشرے میں باعزت مقام دلانا، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی کے ہر پہلو میں معذور افراد کی رسائی اور انضمام کو یقینی بنانا، معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور ان کے مسائل کو اُجاگر کرنا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ہمارے ملک میں 15 فی صد یعنی 3 کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں…… اور ہمارے رویوں کی وجہ سے ان 3 کروڑ لوگوں کا مستقبل انتہائی تاریک اور اذیت ناک ہے۔ معذور افراد کو 1980ء کی دہائی میں ’’سپیشل پرسنز‘‘ کا ٹائٹل دیا گیا تھا، جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم انھیں سپیشل پرسنز نہیں سمجھتے، بلکہ اُنھیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر لطف لیتے ہیں۔ اُنھیں مضحکہ خیز ناموں سے پکارتے ہیں۔اُن پر پتھر پھینکتے ہیں۔ اُن پر آوازے کسے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اُنھیں تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اُن کے ساتھ انتہائی تعصب، بیگانگی اور بے پروائی کا عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اُنھیں کوئی حقوق نہیں دیے جاتے اور اگر وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں، تو اُنھیں ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے پیٹا جاتا ہے۔
بعض نام نہاد این جی اُوز جو انسانی حقوق کی چمپئن ہونے کا دعوا کرتی ہیں، 3 دسمبر کو خصوصی تقاریب کا انعقاد کرتی ہیں۔ کسی معذور فرد کو پکڑ کر صدارت کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سپیشل افراد سے اظہارِ ہم دردی اور اظہارِ یک جہتی کیا جاتا ہے۔ فوٹو سیشن ہوتے ہیں اور پھر اُن تصاویر کو سال بھر کیش کروایا جاتاہے۔
’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کے مطابق اِس وقت دنیا بھر میں 800 ملین یعنی 80 کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہیں، جو دنیا کی کل آبادی (8 ارب) کا 10 فی صد ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں 80 سے 90 فی صد کو آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں، جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 50 تا 70 فی صد ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
عید کی خوشیاں اور محروم افراد  
بصارف سے محروم لیکن بصیرت افروز  
سفید چھڑی کا عالمی دن اور کرنے کے کام  
یہ ڈے اور وہ ڈے  
پنجاب سے بھکاریوں کی نئی کھیپ پہنچ گئی، خصوصی رپورٹ 
پاکستان میں خصوصی افراد ڈھیر سارے مسائل کا شکار ہیں۔ ملکِ عزیز میں معذوری سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے، جس کے سبب اداروں کی انتظامیہ اور کارکنان خصوصی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ اعلا تعلیم اور مہارت کے باوجود صرف جسمانی معذوری کی وجہ سے اُنھیں ملازمت کے لیے نااہل سمجھا جاتا ہے، یا اُنھیں قلیل تنخواہ کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت کی ضرورت ہے اور اُنھیں معذوری کی اقسام کے لحاظ سے اپنے اداروں میں ان خصوصی افراد کے لیے ملازمتوں کی گنجایش نکالنی چاہیے۔ پاکستان نے معذور افراد کی بحالی کے عالمی کنونشن پر بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے ریاست خصوصی افراد کی بحالی کی ذمے دار ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ معذور افراد کے معاملے میں حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ حکومتی کارپرداز معذوروں کی زندگی سنوارنے اور اُن کے حقوق دینے کے وعدے اور دعوے تو بہت کرتے ہیں، مگر اُن وعدوں کے ایفا ہونے کی نوبت کبھی نہیں آتی۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق گئے دنوں کی معصوم لغزشوں کی طرح وہ اپنے وعدے بھی بھول جاتے ہیں۔ حالاں کہ سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کا 3 فی صد کوٹا بھی مخصوص کیا گیا ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ 15 فی صد معذوروں کے لیے صرف 3 فی صد کوٹا رکھا گیا ہے۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ کوٹا صرف زبانی جمع خرچ ہی رہ گیا ہے۔ معذور افراد اپنے حق سے محروم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کا سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا کوٹا بڑھا کر کم از کم 10 فی صد کرے، تاکہ اس محروم طبقے کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا اِزالہ ہوسکے۔
ہمارے ملک میں معذور افراد کی تعلیم و تربیت کے معیاری اور خاطر خواہ تعداد میں ادارے موجود نہیں۔ تحصیل یا ضلعی سطح پر نام نہاد ادارے قائم ہیں جو صرف خانہ پُری کا کام کر رہے ہیں۔ حالاں کہ معذور افراد تو ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں موجود ہیں…… لیکن حکومت نے معذور افراد کو معاشرے کا بوجھ سمجھتے ہوئے بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ یہ بہت ظالمانہ اقدام ہے۔ ہر صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اگر دیہات میں ممکن نہیں، تو ہر قصبے اور شہر میں خصوصی افراد کے لیے نہ صرف تعلیمی ادارے قائم کرے بلکہ ان کے لیے ووکیشنل ادارے بھی قائم کرے، جہاں ان کی معذوری کے حساب سے ان کو ہنرمند بنایا جائے، تاکہ وہ معاشرے کے باوقار اور باعزت شہری بن کر اپنا روزگار کماسکیں اور معاشرے پر بوجھ بھی نہ بنیں۔
حکومت کو چاہیے کہ سرکاری طور پر معذور افراد کی نشان دہی کے لیے ایک سروے کروائے۔ ان افراد کی معذوری کے حساب سے اُنھیں مختلف ’’کیٹاگریز‘‘ میں تقسیم کیا جائے۔ معذور افراد کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں۔ ان کے لیے وہیل چیئر، سفید چھڑی، بیساکھیاں اور مصنوعی اعضا کا بندوبست کیا جائے۔ مسافر بسوں، ریلوے اور ہوائی جہازوں میں ان کے لیے سفری سہولیات مہیا کی جائیں۔ انھیں مخصوص نشستیں مہیا کی جائیں اور کرایوں میں رعایت دی جائے۔ ہمارے ہاں قانون کی کتابوں میں معذوروں کو جو برائے نام حقوق دیے گئے ہیں، انھیں بھی عملی طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔ لہٰذا زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
خصوصی افراد کا سب سے اہم مسئلہ ان کی ذہنی و جسمانی بحالی اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول ہے۔ ان کی تعلیمی ضروریات احسن طریقے سے پوری کی جانی چاہئیں۔ مناسب روزگار ان کا حق ہے۔ انھیں اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کرکے انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ آپ ہم میں سے ہیں اور ہم آپ لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی اور فلاحی اداروں کو بھی ان کی بحالی کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں بھی یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خصوصی افراد کو طنز اور نفرت کا نشانہ بنا کر انھیں احساسِ کمتری کا شکار نہ بنائیں۔ معذوری کا احساس دلا کر انھیں ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج نہ بنائیں۔ ان سے پیار کریں۔ ان کی دل جوئی کریں کہ اپنی مرضی سے وہ معذور نہیں ہوئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔