خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اسی طرح ہم سنتے ہیں کہ کبھی معذور افراد کا دن، کبھی ماں کا دن، کبھی باپ کا دن، کبھی مزدوروں کا دن، کبھی صحافیوں کا دن، کبھی زبانوں کا دن، تو کبھی ثقافت کا دن وغیرہ منایا جاتا ہے۔ کسی حد تک تو چلو یہ بات صحیح ہو سکتی ہے کہ ایک دن منا کر آپ اس کی اہمیت کو اجاگر کر سکتے ہیں، لیکن میری زندگی کا مشاہدہ ہے کہ یہ دن منانا مقاصد کا حصول قطعی نہیں بلکہ یہ محض ایک کمرشل سرگرمی ہے۔ ویسے بھی اگر گہرائی میں جا کر سوچا جائے، تو یہ جہاں معاشی مفادات کا معاملہ ہے وہاں سماجی طور پر اس کی حیثیت محض ایک لطیفہ ہے۔ مثال کے طور پر ’’مدر ڈے‘‘ یعنی سال میں ایک دن ماں کا منایا جاتا ہے۔ اس دن ماں کو پھول دیے جاتے ہیں، تحفے دیے جاتے ہیں، بذریعہ سوشل میڈیا ’’ہائے مام‘‘ کے پیغامات دیے جاتے ہیں، لیکن کیا ماں کی محبت عزت اور اہمیت سال کے 365 دنوں میں سے ایک دن سے وابستہ ہے؟ یعنی باقی کے 364 یا 63 دنوں میں ماں ’’ماں‘‘ نہیں رہتی، یا ماں کی وہ اہمیت عزت اور محبت نہیں رہتی، وجہ……؟ سادہ سی بات ہے، ماں تو مہد سے لے کر لہد تک ماں ہی رہتی ہے۔ دنیا میں رائج تمام مذاہب ہوں، ادیان ہوں، قوانین ہوں بے شک اخلاقی ضابطے ہوں، سماجی رسم و رواج ہوں یا دین کے اصول، ماں کا احترام ایک منٹ واسطے بھی ختم نہیں ہوتا، نہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر اس کی ضرورت کیا پڑی؟
حقیقت یہ ہے کہ جب 20ویں صدی میں یورپ میں صنعتی انقلاب آیا، تو اول انہوں نے معاشرے کو کمرشل کیا اور یہ ’’اوور ٹائم‘‘، یہ ’’دو نوکریاں کرو‘‘ اور ’’خاندانی و سماجی حقوق و فرائض کو ملیا میٹ کر دو‘‘ جیسی باتیں رواج پانے لگیں۔ جب مزید پیداوار کو بڑھانے کی ضرورت پڑی تو عورت کو آزادی کے نام پر صنعتوں کا ایندھن بنا کر رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ آپ کبھی طلاقوں کی اوسط دیکھ لیں کہ صنعتی انقلاب سے پہلے کیا تھی اور صنعتی انقلاب کے بعد کیا ہے؟ اس کمرشل انقلاب اور پیسے کی ہوس نے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کر دیا۔ حقوق کی آڑ میں معاشرتی نظام کو ختم کر دیا لیکن یہ ہوسِ زر اب بھی ختم نہ ہوئی، تو ایک نیا تماشا بنا دیا گیا کہ ’’فلاں کا دن‘‘، ’’فلاں کا دن۔‘‘ اس آڑ میں کمرشل مارکیٹ میں اربوں ڈالر کا بزنس ہو رہا ہے۔ ایک دن میں اربوں کی بکری کی جا رہی ہے لیکن اصل مقصد کی پروا ہی نہیں۔ ہم لوگوں نے اپنی معاشرتی و دینی اقدار کو ایک طرف رکھ کر کوے کی طرح ہنس کی چال چلنے میں ماڈرن ازم اور جدیت کی تلاش شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر آج اعلا خاندانوں کی بیگمات بے شمار تقریبات کا انعقاد کر رہی ہیں۔ پتا نہیں کون کون سی این جی اُو سے کس کس طرح پیسا بنایا جا رہا ہے؟ تقریبات میں خوب صورت الفاظ اور پُرکشش شاعری سے کھل کر استفادہ کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کی مدد سے ذاتی پروجیکشن اور ہم تم بنائی جا رہی ہے، لیکن کوئی ایک بھی نہ میزبان، نہ مہمان، نہ مقرر نہ منتظم، کوئی ایک بھی کیا یہ سوچ رہا ہے کہ ان تقریبات واسطے صفائی کرنے والی نوکرانیوں، کھانے بنانے والی ماسیوں اور غلاموں کی طرح ہر حکم کی بجاآوری واسطے تیار خواتین کو اس کا فائدہ مل رہا ہے۔ اس دن بھی ان کو وہی ڈانٹ ڈپٹ اور وہی بے عزتی مل رہی ہے۔
یہاں راقم کو ذاتی طور ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ راقم اپنے ہائی سکول کے طالب علم بیٹے کو کسی وجہ سے سمجھا رہا تھا۔ بیٹا جدید دور کے بچوں کی طرح فلاسفر بن کر جوابی دلائل دے رہا تھا، جس کی وجہ سے راقم کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا کہ اسی دوران میں راقم کو ایک صحافی دوست کا فون آیا کہ فوراً فلاں جگہ پر پہنچا جائے۔ راقم گھر کی تلخی سے توجہ ہٹانے واسطے دوست کو ملنے چل پڑا۔ مذکورہ جگہ پر راقم نے دیکھا کہ وہاں کچھ اور تحریر و تقریر سے وابستہ دوست بھی موجود ہیں۔ اتنے میں ایک نہایت ہی مہذب، پُرکشش اور باوقار خاتون کی آمد ہوئی۔ سب نے کھڑے ہو کر بہت احترام سے ان کا استقبال کیا۔ معلوم یہ ہوا کہ چند دن بعد محترمہ ’’فادر ڈے‘‘ کے سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری امداد کی متمنی ہیں۔ محترمہ نے اعلا انگریزی لہجے میں گلابی اُردو کی مدد سے ہم کو اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ ہمیں جو کہ خود باپ تھے، کو باپ کی اہمیت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کس طرح ہم بچوں کو یہ بات بتا سکتے ہیں کہ باپ کا احترام کیوں ضروری ہے؟ مَیں نے ازراہِ تفنن یہ کہا کہ میڈم ہم تو اپنے بچوں کو یہ بات نہیں سمجھا سکتے، تو کسی اور کو کیا بتائیں گے؟ جواباً محترمہ نے تگڑی دلیل سے یہ بتایا کہ تب تو ہمارے واسطے اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنا اور بھی ضروری ہے۔
اس کے بعد محترمہ نے خاص کر مجھے مخاطب کیا اور میری وہ وہ خوبیاں بیان کیں کہ جس سے میرا باپ کیا، مَیں بھی آگاہ نہ تھا اورفوراً مجھے اس کی انتظامی کمیٹی کا رکن بنا ڈالا۔
سچ بات یہ ہے کہ راقم اپنے دیہاتی پس منظر کی وجہ سے اس خوب صورت اور تعلیم یافتہ خاتون کے انداز اور اپنی تعریف کی تاب نہ لا سکا اور فوراً کمیٹی کا رُکن بننے پر تیار ہوگیا۔ اس کے بعد فوری طور پر راقم کو مبلغ تین ہزار روپیہ دینا پڑا۔ لیکن آگے مزید حیرت ناک انکشافات راقم کے منتظر تھے، یعنی اس کمیٹی کے رکن بننے کے بعد راقم کو معلوم ہوا کہ کس طرح کچھ کمپنیوں سے پیسا لیا گیا، کس طرح کچھ تحائف اور پھول کا کام کرنے والی کمپنیوں کو سٹال لگانے پر قائل کیا گیا اور ان سے مال پانی لیا گیا۔ قصہ مختصر، یہ تقریب پنڈی کے ایک خوب صورت ہال میں ہوئی۔ جہاں بڑی کاروں والوں باپ بھی تھے اور وہاں پر کرسیاں لگانے مہمانوں کو ریفریشمنٹ دینے والے اور ساتھ میں جھڑکیاں کھانے والے والدین بھی۔ تقریب میں کیا کلاسک تقایر ہوئی۔ کوئی مغربی سکالرز برناڈشاہ اور شیکسپیئر کو بیان کر رہا تھا۔ کوئی اقبال اور ابنِ خلدون کو کوٹ کر رہا تھا۔ قرانی آیات اور حدیثِ نبویؐ سمیت اصحابِ رسولؐ اور آئمہ اہلِ بیت کے اقوالِ زریں بیان کیے جا رہے تھے۔ مجمع داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہا تھا۔ راقم نے بھی اپنے تئیں خوب الفاظ کو سیڑھی بنا کر الفاظ کے ساتھ کھلواڑ کیا، لیکن جب راقم ڈائس سے اتر رہا تھا، تو سوچ رہا تھا کہ وہ اب تک اپنے بچوں کو یہ کیوں نہیں سمجھا سکا؟ الغرض، آخر میں اسی محترمہ نے راقم کی ایک بار پھر تعریف کر کے راقم کے اندر کی خود نمائی کی تسکین کی اور بعد میں معلوم ہوا کہ محترمہ خود والدِ بزرگوار سے بوجوہ بہت دور ہیں اور والد صاحب لاہور کے ایک گھر میں نوکروں کے رحم کرم پر ہیں۔ سو یہ ہے کل اثاثہ ایسے دن منانے کا۔
پھر راقم جب گھر میں داخل ہو رہا تھا، تو اس کو بچوں کی آواز رہی تھی کہ ہم نے پاپا کو ’’ہیپی فادر ڈے‘‘ کا میسج کر دیا ہے لیکن صبح کا جھگڑا وہی تھا۔ یعنی راقم باپ کی اہمیت پر کافی وقت اور خرچہ کر کے ایک تقریر تو جھاڑ آیا تھا، لیکن اپنے بچوں کو باپ کی اہمیت بتانے سے قاصر اور معذور تھا۔
بہرحال میرا ذاتی خیال ہے اور بے شک اس سے اختلاف کی گنجائش ہے کہ یہ دن منانا اور اس کی تشہیر کرنا بذاتِ خود کوئی کارآمد چیز بالکل نہیں۔ یہ محض ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک طریقۂ واردات ہے کہ جس کی آڑ میں ایک دن میں اربوں کا منافع سیٹھوں کی جیبوں میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اور حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہم میں سے ہر شخص ایک طرف تو اپنا فریضہ سمجھ کر کم ازکم اپنے بچوں کو ماں، باپ، خواتین، مزدور وغیرہ کا احترام بتائے اور دوسری طرف ان کے سامنے اپنے کردار سے یہ ثابت کرے کہ وہ خود بھی اس کو عملی طور کتنی اہمیت دیتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ آپ بچوں کو ماں کی اہمیت پر لیکچر دیں اور بچوں کے سامنے ان کی دادی دوا واسطے آپ کی منتظر ہو اور آپ کو پروا ہی نہ ہو۔ جب آپ خود سماجی ذمہ داری اور مذہبی فریضہ سمجھ کر کام کریں گے، تو پھر آپ کو کسی ’’ڈے‘‘ کو منانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ اس پر وقت اور پیسا برباد کرنے کی، لیکن اگر آپ کی نیت اور دیانت دارانہ کوشش ایسی ہو تو۔ وگرنہ ایسے دن منانے اور خواہ مخواہ خود نمائی اور جعلی تقاریر واسطے یہ مناسب موقع ہوتا ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں اور منافقت بھرے لیکچر دیں اور سیٹھوں کے منافع کو بھڑاوا دینے میں اپنا حصہ ڈالیں، بلکہ اس محترمہ کہ جس نے راقم کو بہت ہوشیاری سے گھیرا تھا کی طرح اگر آپ چالاک ہیں، تو بنا کسی خاص کوشش کے مال بھی خوب بنائیں اور عیش کریں۔
اس طرح ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا۔
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔