بخیر و عافیت حسن ابدال سے نکلتے ہیں۔ بڑے بڑے سائن بورڈز پر ڈرائیور حضرات کے لیے مختلف ہدایات درج ہیں، جن میں جن سائن بورڈ زپر’’آہستہ چلیں، ہمیں آپ کی زندگی عزیز ہے!‘‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں، اُن میں لفظ ’’ہمیں‘‘ پر ہمیں شدید اعتراض ہے۔ اِس ’’ہمیں‘‘سے مراد ہے کون؟ جس کو ہماری زندگی عزیز ہے۔ کہیں وزیرِ مواصلات کی کرسی ’’گریب‘‘ کرنے والے مراد سعید ’’جوشی‘‘ تو نہیں؟ اس ملک کے حکمرانوں کو جہاں تک ہم نے جانا، اُن کو ہماری زندگی نہیں فوتگی بڑی عزیز ہے، جہاں وہ ہمیں سکون کا جھانسا بھی دیتے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار معصوم لوگوں کے بہے ہوئے خون کے دریاکا جائزہ لیں ، پھرسوچیں، اِن کو ہماری زندگی کتنی عزیز ہے، اور موت کتنی؟
درمیانِ نزاعِ دیر و حرم
مارے جاتے ہیں کس خوشی میں ہم؟
الغرض، چین سے نہ بیٹھیں گے
اے خدا! تیری زندگی میں ہم
بندہ پٹڑی سے پھسل جائے، تو بڑی آسانی کے ساتھ کسی شعر کا سہارا لے کر چراغوں میں روشنی نہ ہونے کا جھوٹ نہیں بولنا پڑتا۔ خیر سے اسلام آباد اب منٹوں کی دوری پر ہے، لیکن ساتھی گاڑی کو یوں بھگا رہا ہے جیسے وہاں کسی اہم فریضہ کی انجام دہی کے لیے ہمارا بلاتاخیر پہنچنا اشد ضروری ہو۔ ویسے یہ پشاور سے لاہور تک موٹر وے کے دونوں اطراف میں سرکار کے زیرِ قبضہ وسیع و عریض رقبہ زمین پرکیکر، پاپلر،یوکلپٹس، شیشم، توت اور کئی اوراجنبی درخت جوجگہ جگہ لگے نظر آرہے ہیں، کاش! کوئی سنجیدہ عقل داڑھ رکھنے والے بھی اِس ملک کی منصوبہ بندی کا حصہ ہوتے، اور وہ اس سلسلہ میں دوہزار سات آٹھ میں دی گئی سفارشات پرتھوڑی سی مغز ماری کرکے وسیع تر ملکی مفاد میں مان لیتے، تو آج یہاں اِن فضول وبیکار درختوں کے بجائے پھل دار درختوں کے باغات ہوتے۔ ترکی کے شہر اَزمیر کی طرز پر اصلی زیتون کے جنگل کے جنگل پھلوں سے اٹے پڑے ہوتے۔ کہیں انگور، کہیں پیکان، اخروٹ اور انجیر کے درخت نظر آتے۔ ہزاروں لوگ فروٹ جمع کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے، تیل نکانے کے ’’پورٹیبل پروسیسنگ یونٹس‘‘ جگہ جگہ لگے تیل نکال رہے ہوتے، نرسری ریزنگ کا سیکٹر روبہ ترقی ہوتا۔ موٹر ویز کے آوٹ لیٹس پر کئی لوگ زیتون ونڈو ز کے ذریعے تیل اچار اور پودوں کی فروخت میں منہمک ہوتے اور ایک دنیا اس کاروبار سے مستفید ہوتی نظر آتی۔ اور تو اور ٹریفک کے دباؤ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کم سے کم تر ہوتی۔ کیوں کہ زیتون کا پودا مستقل طور پر ماحولیاتی خدمات فراہم کرتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے، تین سو پینسٹھ دِن اور، اور تو اور دیکھنے میں کتنا بھلا لگتا ہے یہ پُررونق پودا، آنکھوں کو کتنی تراوت اور دماغ کو کتنا تسکین بخشتا ہے، کوئی اِ سی پیرامیٹر میں دیکھے تو سہی۔ بلاشبہ سی پیک اب بھلا ہے، یا بُرا ہے جیسا بھی ہے،ہماری مجبوری ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ان فنڈز سے ایک خطیر حصہ ہائی ویز، موٹر ویز اور ریلوے ٹریکس پر زیتون، انگور، انجیر اور پیکان کی کاشت کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ سوچتے سوچتے واہ آرڈینیس فیکٹری کی جغرافیائی حدود میں دخیل ہوتے ہیں کسی شناختی پریڈ کے بغیر اور خروج بھی کرتے ہیں کسی پوچھ گچھ کے بغیر۔ نہیں جانتا، یہاں کی اور کیا چیز منفرد ہوسکتی ہے، سوائے اسلحہ سازی کی ضخیم صنعت کے اور اُس گردن دراز ودراز قد شہرہ آفاق خاتونِ خانہ کے عشقِ ممنونہ کے ذکر کے، جو بد امنی کے دور میں جنگ زدہ علاقہ جات سے آکر اِس شہر میں مقیم ہوئی ۔ یہاں آمد سے پہلے ہی یہ طویل عرصے سے ہمارے ایک شاعرِ شمال دوست کے دل کی مملکت پر راج کرتی رہی۔اِس آبیل مجھے مار والے دِل کی راج دھانی پر بیک وقت درجنوں دیگر حسینائیں بھی راج کرتی رہی ہیں۔ کسی کو اپنے دامِ الفت میں پھنسانے کے فن سے کارخانۂ قدرت نے ہمارے اِس دوست کوبڑی فیاضی سے نوازا ہے۔ تاہم ’’حسینہ بالا‘‘ پربڑے خشوع و خضوع کے ساتھ دَم پھونک کر یوں رام کیا، یوں رام کیاجیسے اپنے بنوچی بھائی کسی بٹیر کو ہتھیلی میں رگڑا رگڑ ا کر اُس کی اُڑان کی خواہش کو خالی خولی انگڑائی میں بدل کر دم لیتے ہیں۔ قصہ مختصر ،ہم جب اِس شہر سے گزر تے ہیں، تو خواتین کی گردنوں کو بڑے غور سے دیکھتے ہیں اور اُن کے سائز کا خیالی ناپ تول کرتے ہیں، تاکہ کہیں نظریں اُن کے ساتھ ٹکرا جائیں، تو اُن کی خدمت میں سابقہ عاشق کی طرف سے یہ اشعار پیش کرکے ثوابِ دارین کے کوٹے میں کماحقہ اِضافہ کرسکیں ۔
کس طرح روکتا ہوں اشک اپنے
کس قدر دل پہ جبر کرتا ہوں
آج بھی کارزارِ ہستی میں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم
کس محلے میں ہے مکاں تیرا
کون سی شاخِ گُل پہ رقصاں ہے
رقصِ فردوس آشیاں تیرا
جانے کن وادیوں میں اُترا ہے
غیرتِ حسن کارواں تیری
کس سے پوچھوں گا میں تیری خبر
کون بتلائے گا نشاں تیرا
تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں!
وقت کم ہے آگے نکلیں……؟ (جاری ہے)
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔