کیا یہ قیامت کی نشانی نہیں کہ ایک دو دہائی پہلے اپنے سوات میں قدم قدم پر قدرتی چشمے اور آبشاریں ہوا کرتی تھیں۔ آج وہاں نہ صرف یہ کہ بہتے ہوئے چشمے اورآبشارسُوکھ چکے ہیں، بلکہ اب تو پینے کے پانی کے لیے بھی تین چار سو فٹ گہرائی تک کنویں کھود ے جاتے ہیں۔ یہ گہرائی بلوچستان میں پتا ہے کتنی ہوتی ہے؟تین ہزار فٹ سے بھی زیادہ۔ رپورٹس کے مطابق پانی کی سطح مسلسل گرنے کی وجہ سے ہر سال زمین دس سنٹی میٹر نیچے دھنس رہی ہے، لو کر لو گل۔ حکمران اگر سطحِ زمین پر موجود پانی کوذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، تو بہ صداحترام کیا اِن ’’ڈنگ تالوں‘‘ سے ہم لنڈورے بھلے، نہیں؟
یہ کیا، اِدھر ہم اپنی ٹھیک ٹھاک علمی دھاک بٹھانے کے لیے بڑے معقول انداز میں پانی سے متعلق درسی سرگرمی میں ملوث ہوئے، اُدھر صوابی کے حدودِ اربعہ کے ریڈار سے غائب ہوگئے۔ احوالِ سفر میں بھی درس، ’’سرمن‘‘، ’’لیکچرز‘‘ اور ہدایات! یہ تو ایسا عمل ہے جیسے بازاروں میں ناجائز تجاوزات۔ بہرحال ہمیں جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ پاگل پن کے دور ے اکثر ہم پر پڑتے رہتے ہیں۔ اِن دوروں کے دوران میں ہم درس وتدریس کی ایسے محافل منعقد کرتے ہیں ، کوئی اِس کو زیادہ سنجیدہ نہ لے۔ صوابی سے گزرتے ہوئے یاد دلاؤں کہ بد امنی کے دوران میں مردان اور صوابی کے باسیوں نے سوات کے دس لاکھ مہاجروں کو مہمان مان کر گلے سے لگایا۔ اُن کو اپنے گھروں، حجروں، بیٹھکوں اور دیگر عمارات میں بسایا۔تین مہینے تک انہیں مہمان بنائے رکھا اور خوب خاطر مدارت کی۔ ہمارے کلابٹ کے سعید خان اور شاہ منصور کے حکیم گل وارث جیسے دوستوں نے اپنا کام کاج چھوڑ کر ہمیں وقت دیا، دلاسادیا اور ہمارے دُکھوں کا مداو کیا۔ بھلا یہ بھی کوئی بھولنے والی باتیں ہیں۔ سلام صوابی مردان۔ چشمِ زدن میں کرنل شیر خان انٹرچینج پر چڑھائی کر بیٹھتے ہیں۔ سی پیک انڈسٹریل سٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے، مستقبلِ بعیدکایہ صنعتی شہر اور آلودگی کا منبع چائینہ کی دین ہے جو ’’پنسل خٹک‘‘ کا ایوارڈ وخطاب پانے والے ایک سابقہ وزیر اعلیٰ کی ناجائز محنت کا پھل ہے۔ ایسا پھل جو کھانے کا ہے نہ پینے کا، سونگھنے کا ہے، نہ چومنے کا۔ ایک نامعلوم مہربان کایہ شعر اُن پر بڑا جچتا ہے، بے حرمتی نہ ہو، اس شعر کی، تو یہ تمام خامیوں اور خوبیوں سمیت اُن کو ’’ڈیڈی کیٹ‘‘ کردیں:
تیرا بجا ہے ’خان نوازش علی‘ خطاب
یہ نام نو بتوں میں تجھے نامور کرے
ویسے آپس کی بات ہے، یہ چائینہ پاکستان اکنامک کاریڈور المعروف سی پیک کے تحت بے تحاشا لاگت کے بڑے بڑے منصوبے، جو پاکستان میں جاری ہیں اور جس میں اپنے حصے کے حصول کے لیے ہم آپس میں یوں مشت و گریباں ہیں، یوں مشت وگریباں ہیں، معاف فرمائیں، جان اللہ کو دینی نہیں، ’’اللہ نے لینی ہے‘‘، جیسے قصائی کی دُکان کے سامنے کھڑے کتے چربی کے ایک قتلے یا گوشت کے لوتھڑے پر آپس میں مشت وگریباں ہوتے ہیں۔ تو وہ جان لیں کہ یہ منصوبے توچینی ساہوکار ا پنے خصوصی مقاصد کے حصول کے لیے سر انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے فائدے کے لیے یہ تھوڑی ہیں! بھائیوں، مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ہمیں بھاری سود پر قرضے بھی دے رہے ہیں، اُن قرضوں کو اپنی مرضی کے پروجیکٹس پر لگاتے ہیں، اپنی مشینری، کارکن اور سہولت کارلاتے ہیں، اور مفت میں ہمارے ماحول و معاشرت پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ فی الوقت جاری کام لگتے تو بڑے دلِ خوش کن ہیں، لیکن آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ پانچ دس سال بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ چینی یاجوج ماجوج لاؤ لشکر اور ڈالرز سمیت یہاں پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہوں، ہماری زمینیں اور پراپرٹی پر کسی نہ کسی صورت قبضہ جما رہے ہوں، اپنی ہٹیوں میں ہمیں کرایہ دار یا جز وقتی مزدور شزدور لگا رہے ہوں اور کچھ ہی عرصے میں پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف ہماری نسلوں کوباجماعت دھکیل رہے ہوں، الامان و الحفیظ۔
چین کے قرضوں میں نتھنوں نتھنوں دھنسا کینیا اور کئی افریقی ممالک کا آج کل کیا حال ہونے جا رہا ہے؟ کیا اُس کو ’’ایگزامن‘‘ کرنے کی ضرورت محسو س نہیں ہو رہی اِس صورتِ حال میں؟ چلو موٹر ویز، اورنج ٹرینز، بی آر ٹی اور اس نوع کے دیگر منصوبے جو جاری ہیں، بجا سہی لیکن کس قیمت پر؟ کیا اِس پر گہرائی سے نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؟ یہ بڑا بنیادی سوال ہے جس کا جواب دینا متعلقین پر فرض ہے۔ اللہ جانے کیا ٹھیک ہے کیا غلط؟ تاہم ہماری نامعقول نظر میں تو حال یہ ہے کہ
وخت چی پہ ما باندی احسان کوی نو داسی کوی
ما نہ سرمن اوباسی مالہ تی سادر جوڑہ وی
کچھ ہی دیر میں گاڑی کے ٹائرزحسن ابدال کی لائن آف کنٹرول کو ٹچ کرنے والے ہیں۔ ڈرائیونگ کرنے والے ساتھی کی بچکانہ ضد ہے کہ یہی پر ایبٹ آباد کی جانب ’’وی ٹرن‘‘ لیا جائے تاکہ مانسہرہ تک مکمل ہونے والی نئی موٹر وے کا نظارہ کریں۔ موسمِ خزاں کے اِس ’’سریلے موسم‘‘ میں حویلیاں کے کڑاکے دار پکوڑوں پر ٹوٹ پڑیں، ہری پور کی مرچیلی مچھلیوں کو پیٹ میں لپیٹ لیں، اوپر سے پڑوسی خانپور کے رَس بھرے مالٹوں کو ڈکاریں، طارق ایوب خان اور دیگر دوستوں کے ساتھ شامِ غزل منائیں، الیاسی مسجد کی فی زمانہ صورتِ حال ملاحظہ کریں، شملہ پہاڑی پر نظرِ خطا ڈالیں، ٹھنڈیانی کے ٹھنڈ سے محظوظ ہوں وغیرہ وغیرہ۔اُن کی یہ خواہش بڑی نرمی سے مسترد کرتے ہیں ، ہم ۔ تاہم وہ بار بار ضد کرتے ہیں تو ہم ’’ویٹو پاور‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ تب وہ اپنی زبان کو دانتوں تلے دبا کراُسے ہونٹوں کا زِپ پہناتے ہیں، لیکن خاموش احتجاج کا آپشن استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔ اُن کے خفیہ ارادوں کا ہمیں پتا ہے، وہ ایبٹ آباد کے متعلق ہمیں سبز باغ دکھا تے ہیں، وہاں کی لذیذ اشیائے خور و نوش سے استفادہ کرنے کو للچاتے ہیں، پروفیسر طارق اور محمود اسلم جیسے دوستوں اور قیصر سواتی جیسے برخورداروں سے ملنے کا واسطہ دیتے ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ بذاتِ خود اپنے دیگر پیاروں کے ساتھ کچھ وقت کے لیے گوشہ نشین ہونا چاہتے ہیں، آئی ڈی پیز دور کی یادوں میں کھونا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہاں پہنچتے ہی ہمیں ’’جہاں ہیں جیسے ہیں‘‘ کی بنیاد پر دوستوں کے پاس مستعار چھوڑ جائیں گے اور خود اپنے پیروں مریدوں کے آستانوں میں جائیں گے۔ تجدیدِ وفا کادم بھی بھریں گے اور تذکیہ نفس بھی کریں گے۔
پھر اُس کی گلی میں جائے گا، پھر سہو کا سجدہ کرے گا
اِس دل کا بھروسا کون کرے ، ہر روز مسلمان ہوتا ہے
(جاری ہے)
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔