ابھی کل پرسوں ملک کی نامور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عنیزہ نیاز کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں وہ جدید دور کے مسائل پر گفتگو کر رہی تھی اور نوجوانوں میں نفسیاتی مسائل پر بات کر رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق سب سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا تعلق نوخیز نوجوانوں سے ہے، اس کی بڑی وجہ بے روزگاری اور قطع تعلق ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان دل برداشتہ ہیں جن کی وجہ سے ان کا ذہن مایوسی کا شکار ہو کر عجیب و غریب خیالات و تصورات کو جنم دیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے دوسری اہم وجہ یہ بتائی کہ ہم اپنے احساسات دل میں دباتے ہیں اور ان کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔ اگر ہم دل کے احساسات کو شیئر کریں، تو ایسے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ اسی فیلڈ سے وابستہ ہیں اور لامحالہ اس کے مشاہدات و تجربات ہم سے زیادہ تیر بہدف ہوں گے، لیکن جن اسباب کا ڈاکٹر صاحبہ نے ذکر کیا ہے صرف یہی ہمارے معاشرہ کے نفسیاتی مسائل کی وجوہات نہیں۔ ہمیں جامع انداز سے ان محرکات کو سٹڈی کرنا ہوگا جو معاشرے میں بے چینی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
آج سے تیس سال قبل یعنی اسّی کی دہائی تک زندگی پرانے رنگ ڈھنگ کے ساتھ رواں دواں تھی۔ زندگی میں اتنی سہولتیں بھی نہیں تھیں اور پیچیدگیاں بھی۔ انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور کے ہمارے ایک دوست سبحان خٹک اکثر ایک بات کیا کرتے تھے کہ سہولتوں سے زندگی میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بات گہری تھی جس کا احساس اب ہمیں ہو رہا ہے۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے زندگی آسان اور سادہ تھی۔ اکا دکا گھر میں ٹی وی، وی سی آر اور فریج جیسی سہولتیں دستیاب تھیں۔ بڑے شہروں کے علاوہ دیہاتی کلچر میں ٹی وی دیکھنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ فیشن اور گلیمر ہمیشہ میڈیا سے اٹھتا ہے۔ جب میڈیا ہی نہیں تھا، تو نمود و نمائش بھی نہیں تھا۔ دکھاوے، ایک دوسرے سے مادی سبقت اور مادی مقابلے معاشرتی بے چینی کو جنم دیتے ہیں۔ جب مادی مقابلے نہ ہوں، تو دل مطمئن رہتا ہے اور قناعت پسندی کا رجحان فروغ پاتا ہے۔ اسّی کی دہائی کے آخر تک ہمارے معاشرے کا زیادہ حصہ پرانے ڈگر پر چل رہا تھا۔ حجرے آباد تھے۔ معاشرتی روابط میں گرم جوشی تھی۔ اخلاص اور ہمدردی ہر جگہ عیاں تھی۔ نوّے کی دہائی کے وسط سے ٹی وی کلچر ’’سٹیس سمبل‘‘ بنتا گیا۔ ہر دوسرے تیسرے گھر میں ٹی وی آتا گیا۔ فیشن اور گلیمر سے بھرپور ڈرامے اور اشتہارات قوم کو دکھائے جانے لگے۔ ان چیزوں نے ٹی وی کے آنے کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں قدم جمانا شروع کیا۔ ان کے دیکھا دیکھی نوجوانوں نے بھی آہستہ آہستہ اثر لینا شروع کیا۔
میں اکثر دوستوں سے اس چیز کا اظہار کرتا رہتا ہوں کہ ٹی وی اور میڈیا نے ہمیں جو سکھایا ہوتا ہے، اسے دیکھنے کے لیے دو طریقے ہیں۔ یونیورسٹی میں جا کر دیکھ لیں، یا شادی بیاہ کے موقع پر۔ ٹی وی عام ہونے کے بعد معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لباس اور انداز نے ہمیں یہ یقین دلایا کہ قوم کا نوجوان اپنا راستہ کھو چکے ہیں۔
ٹی وی عام ہونے کے بعد دو ہزار تین عیسوی سے معاشرے میں موبائل اور کیبل نیٹ ورک پھیل گیا، جس نے رہی سہی کمی پوری کر دی۔ تھری؍ فور جی اور سمارٹ فون آنے کے بعد اسلامی معاشرے ہل کے رہ گئے۔ ہمارے مشرقی معاشرے غیرت و حیا، خوفِ خدا اور ہمدردی کی بنیاد پر بنے ہوتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ، کیبل اور موبائل فون کے آنے کے بعد یہ معاشرے اب ہوا میں معلق ہیں۔ اس ٹرائیکا نے جہاں معاشرے کو سہولتیں دی ہیں، وہاں انہیں انتہائی گھمبیر مسائل سے بھی دوچار کیا ہے۔ انٹرنیٹ ہو، موبائل ہو یا کیبل، ان تینوں کے استعمال کا اجتماعی طریقہ وضع کیے بغیر، ان کے مینرز طے کیے بغیر قوم پر ان کو مسلط کیا گیا۔ جس کا نتیجہ آج شدید معاشرتی بے چینی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ تینوں نے یک دم سے ہمارے معاشرے میں نمود و نمائش کو ہوا دی۔ معاشرتی سادگی و قناعت پسندی کو متروکہ کلچر سے تعبیر کیا۔ یک دم سے گلیمر کے اٹھنے کے بعد معاشرہ شدید بے چینی کی طرف چل پڑا، جس کا علاج اب اگر ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ ریاستی سطح پر تعلیمی ادارے ملک بھر میں زیادہ ہوگئے۔ ہر ضلع میں یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ نوجوانوں نے میڈیا سے اثر لے کر اور تھوڑی سی تعلیم حاصل کرکے جو خواب دیکھے ہوتے ہیں، ان کی تکمیل ریاست کے لیے ناممکن ہوتی ہے۔ اوپر سے جو ادارے ملک میں نوجوانوں کو کھپاتے تھے، وہ بھی بند ہو گئے ہیں، یعنی توقعات زیادہ ہونے لگی ہیں۔
مارکیٹ میں تعلیم یافتہ نوجوان زیادہ ہونے لگے، گلیمر بڑھتا گیا اور روزگار کے مواقع کم ہوتے گئے ۔ ان حالات میں سب سے زیادہ بے چینی و بے قراری کا شکار نوجوان ہونے لگے۔
موبائل، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک نے جنسی ترغیبات کو اُبھارا۔ ان تینوں نے معاشرے میں لڑکے لڑکیوں کے جنسی ترغیبات کو جس انداز میں ابھارا ہے، اس سے بھی معاشرتی بے چینی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، لیکن اس ٹرائیکا نے جس تیزی سے معاشرے سے حیا چھینی ہے، اس کا تصور ہی بھیانک ہے۔ جنسی ترغیبات زیادہ ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل شدید بے چینی کا شکار ہے۔جنسی بے راہ روی نفسیاتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اگر مختصراً کہا جائے تو معاشی و جنسی بگاڑ نے نوجوانوں کو شدید نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد دکھاوا اور گلیمر اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ ہر طرف دکھاوے کا بازار گرم ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں فرسٹریشن کی ایک اہم وجہ سوشل میڈیا بھی ہے۔ کراچی کا ایک اہم ماہرِ نفسیات معاشرتی بے چینی کی ایک اہم وجہ انفارمیشن کی بہتات بتاتا ہے۔ آج کم عمری میں انسان شدید ذہنی الجھنوں کا شکار رہتا ہے۔ بقول مذکورہ ڈاکٹر صاحب کے ’’جب زیادہ معلومات ہمیں ملتی ہیں، تو ان معلومات کا تجزیہ کرنے کے لیے دماغ کو ٹائم چاہیے ہوتا ہے۔ اتنی زیادہ معلومات کا تجزیہ دماغ کر نہیں سکتا جس سے دماغ الجھن کا شکار ہو جاتا ہے اور جس کا اثر پوری صحت پر پڑتا ہے۔‘‘
معاشرتی بے چینی کے کئی اور اسباب بھی ہیں لیکن جو اوپر بیان ہوئے یہی میری نظر میں یا میری تحقیق کے مطابق سب سے اہم ہیں۔ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان حالات کا جائزہ لے اور معاشرتی بگاڑ کے اس سیلاب کو روکے، نہیں تو آنے والا وقت اس سے بھی بدتر ہوگا۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔