قیام پاکستان کے وقت سنہ1947ء میں گنتی کے چند اخبارات تھے جوکہ بہت کم تعداد میں شایع ہوتے تھے۔ کراچی سے نیشن، جنگ اور ڈان شایع ہوتے تھے جب کہ خیبر پختون خوا سے شایع ہونے والے اخبارات روزنامہ آزاد اور مارننگ نیوز ڈھاکہ منتقل ہوگئے جب کہ قیام پاکستان کے وقت ڈھاکہ، لاہور اور پشاور سے تین ریڈیو اسٹیشن کام کر رہے تھے۔ فوری طور پر کراچی میں بھی ایک ریڈیو اسٹیشن قایم کیا گیا۔ اس طرح ان اداروں کو سرکاری معلومات اور اعلیٰ حکام کی خبریں دینے کے لیے اے پی پی نامی سرکاری نیوز ایجنسی 1947ء میں بنائی گئی۔ بعد میں کئی غیرسرکاری نیوزایجنسیاں بھی بنتی گئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریڈیو اسٹیشن اور اخبارات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ یوں چھبیس نومبر 1964ء کو پاکستان میں ٹیلی ویژن کی باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان میں اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے باقاعدہ خبریں اور معلومات دی جاتی رہیں۔ زیادہ تر حکومتی اور پروٹوکول خبریں دی جاتی تھیں۔ 2000ء تک پاکستان میں سرکاری ٹی وی چینل کی نشریات کی اجارہ داری تھی مگر صدر مشرف نے اس وقت پیمرا( پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیرٹی اتھارٹی) قایم کی اور اس ادارے کے ذریعے پرائیویٹ ٹی وی چینلز، ایف ایم ریڈیو اور کیبل نشریات کی اجازت دے دی جس نے پاکستانی میڈیا میں ایک بنیادی تبدیلی کا آغاز کیا۔ اس وقت پاکستان میں ذرایع ابلاغ کے لیے متعدد ذریعے استعمال ہو رہے ہیں جن میں اخبارات، ریڈیوز، ٹی وی چینلز اور ویب سایٹس شامل ہیں۔ پاکستان میں میڈیا سے استفادہ کرنے والوں کے اعداد و شمار کسی بھی خاص ادارے کے پاس نہیں، مگر آل پاکستان نیوز پیپر سوسایٹی جو اخبارات کے مالکان کی ایک مضبوط تنظیم جانی جاتی ہے، کے مطابق ملک بھر میں 5000 سے زاید روزنامے، ہفت روزے، پندرہ روزے، ماہ نامے اوردیگر مطبوعات باقاعدگی سے شایع ہوتی ہیں، جن میں 2000 کے قریب مقامی، صوبائی اور قومی روزنامے ان کے باقاعدہ ممبر ہیں۔

اس طرح پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیرٹی اتھارٹی کے 2010ء میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچاسی ٹی وی چینلز جن میں بیس نیوز چینلز شامل ہیں، باقاعدہ نشریات دے رہے ہیں۔ ان چینلز میں علاقائی زبانوں پر مشتمل چینلز بھی شامل ہیں جب کہ ملک بھر میں 2500 کیبل آپریٹرز کو نشریات کے لیے اجازت نامے دیئے گئے ہیں۔ اس طرح 103 ایف ایم کمرشل ریڈیو اسٹیشن اور 24 یونیورسٹیوں کو کیمپس ریڈیو چلانے کی اجازت ہے۔ اس طرح تقریباً تمام قابل ذکر اخبارات، ٹی وی چینلز اور ریڈیوز کے اپنے ویب سایٹس ہیں جن سے بھی قارئین مستفید ہو رہے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکس اور دیگر معلوماتی ویب سایٹس بھی موجود ہیں۔

آل پاکستان نیوز پیپر سوسایٹی جو اخبارات کے مالکان کی ایک مضبوط تنظیم جانی جاتی ہے، کے مطابق ملک بھر میں 5000 سے زاید روزنامے، ہفت روزے، پندرہ روزے، ماہ نامے اوردیگر مطبوعات باقاعدگی سے شایع ہوتی ہیں، جن میں 2000 کے قریب مقامی، صوبائی اور قومی روزنامے ان کے باقاعدہ ممبر ہیں۔ (Photo: Youlin Magazine)

2008ء میں بی بی سی پاکستان نے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق پاکستان میں ٹی وی تک رسائی پانے والے افراد میں 56 فی صد لوگ سرکاری ٹی وی اور باقی پرائیوٹ ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں مگر اب اس شرح میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ کیوں کہ 2008ء سے اب تک کئی مزید پرائیوٹ ٹی وی چینلز شروع ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بے تحاشا ترقی کی اور اس کے لیے تربیت یافتہ صحافیوں کی ضروت بڑھ گئی مگر بدقسمتی سے یہاں صحافیوں کی تربیت کے لیے مناسب ادارے موجود نہ ہونے سے اس شعبہ میں کئی ایسے افراد آگئے جن کو صحافت کے بنیادی اصولوں کا علم نہیں تھا۔ انٹرنیوز جوکہ صحافیوں کی فلاح وبہود کا ادارہ ہے، کے اعداد وشمار کے مطابق جب پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز لانچ نہیں ہوئے تھے یعنی 2000ء سے پہلے 10,000 کے قریب کارکن صحافی کام کر رہے تھے، مگر اس وقت پورے پاکستان میں 21,000 کے قریب صحافی مختلف اداروں کے ساتھ کام کرہے ہیں اور کئی اداروں نے ایسے لوگوں کو بطور صحافی بھرتی کیا ہے جن کو صحافت کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔ اس عمل نے بہت سے مسایل پیدا کیے۔ اس طرح کئی اخبارات صحافیوں کو باقاعدہ تنخواہیں نہیں دیتے جس سے صحافت اور صحافیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور اس سے زرد صحافت یا غیر معیاری صحافت نے جنم لیا۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیرٹی اتھارٹی کے 2010ء میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچاسی ٹی وی چینلز جن میں بیس نیوز چینلز شامل ہیں، باقاعدہ نشریات دے رہے ہیں۔ (Photo: aljazeera.com)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں زیادہ ترلوگ کیبل ٹی وی پر پرائیویٹ ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی آمدنی کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہے۔ اس لیے پرائیوٹ ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز کے نام پر ناظرین کو متوجہ کرنے کے لیے مقابلہ کا رجحان شروع کیا اور ڈی ایس این جی (ڈیجیٹل سٹیلایٹ نیوز گیدرنگ) کے ذریعے براہ راست نشریات میں بم دھماکوں اور تشدد کے کئی ایسے مناظر دکھائے جو کہ صحافتی اصولوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے اثرات بھی دیکھنے والوں پر بہت برے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال اور بم دھماکوں نے ان ٹی وی چینلز کو وہ مواد وافر مقدار میں فراہم کیا جس میں کئی ایسے مناظر دکھائے گئے ہیں جو کہ پاکستان کے قانون کے مطابق بھی ممنوع ہیں۔ اس طرح بعض اخبارات نے بھی وہ تصاویر جاری کیں جوکہ صحافتی اصولوں کے منافی ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز نے عام لوگوں کے انتہائی ذاتی مواد کو بھی نشریات کا حصہ بنایا جس کو سنجیدہ صحافتی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیرٹی اتھارٹی کے مطابق کئی مرتبہ پاکستان کے بڑے چینلز اے آر وائی نیوز، جیو نیوز، ایکسپرس نیوز، دنیا ٹی وی اور آج نیوز کو وارننگ اور کئی چینلز جن میں سماء ٹی وی شامل ہے، خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ کیا گیا ہے جب کہ دس ایف ایم ریڈیوز کی لایسنسوں کو منسوخ کیا گیا ہے۔
اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان نشریاتی اداروں نے نشریاتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خبریں نشر کیں۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیرٹی اتھارٹی کے مطابق کئی مرتبہ پاکستان کے بڑے چینلز اے آر وائی نیوز، جیو نیوز، ایکسپرس نیوز، دنیا ٹی وی اور آج نیوز کو وارننگ اور کئی چینلز جن میں سماء ٹی وی شامل ہے، خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ کیا گیا ہے جب کہ دس ایف ایم ریڈیوز کی لایسنسوں کو منسوخ کیا گیا ہے۔ (Photo: Dawn.com)

پاکستانی نشریاتی اداروں میں صحافیوں اور ٹیکنکل اہلکاروں کے لئے مواقع اب بھی موجود ہیں جس طرح بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان میں حکومت نے پرائیویٹ چینلز کو اجازت دی، تو ایک دم 84 ٹی وی چینلز اور سیکڑوں ایف ایم ریڈیو اسٹیشن منظر عام پر آگئے اور اس کے ساتھ لوگوں کو معلومات کی وافر مقدار ملنا شروع ہوگئی، تو ساتھ ہی حکومت کی الیکٹرانک میڈیا پر اجارہ داری ختم ہوگئی اور پرائیویٹ چینلز کے درمیان مقابلہ کے رجحانات پیدا ہوگئے اور ان چینلز کو اپنی نشریات جاری رکھنے کے لیے مزید اہل کاروں کی ضروت پڑنے لگی۔ میڈیا سے وابستہ اہل کاروں کی مانگ میں اضافہ ہوا جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملنے لگا اور جن اہل کاروں نے اچھی کارکردگی دکھائی، ان کی خدمات حاصل کرنے کے لیے چینلز کے درمیان باقاعدہ رسہ کشی ہونے لگی اور اچھے سے اچھا اہلکار ہر ادارہ اپنے لیے رکھنے کا خواہش مند ہونے لگا جس سے صحافت سے وابستہ افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ دوسری طرف عوام کو معیاری خبریں دینے کا رجحان بھی پیدا ہوا جب کہ نئے آنے والے اداروں کے لیے بھی مواقع پیدا ہوئے۔

جس طرح پاکستانی میڈیانے کشیدہ حالات اور معاشرہ میں ہونے والی بدعنوانیوں، زیادتیوں اور بااثر لوگوں کی بدعنوانی کی نشان دہی کرنے کا سلسلہ شروع کیا، تو اس سے میڈیا اور ان کے نمایندگان کو باقاعدہ دھمکیاں دینے اور ان پر قاتلانہ حملے اور بم دھماکے تک شروع ہوگئے جس سے کئی صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی ادارے، اخبارات اور ٹی وی کے دفاتر تشدد کا نشانہ بنے۔ سی پی جے (کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ) نامی تنظیم کے مطابق 1992ء سے 2013ء تک 52 صحافی پاکستان میں اپنے کام کے دوران میں قتل کیے گئے ہیں جن میں سب سے زیادہ 2004ء سے اب تک مارے جاچکے ہیں جن میں کچھ اپنے کام کے دوران میں بم دھماکوں کا نشانہ بنے، مگر زیادہ تر ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے قتل کیے گئے ہیں۔

اس طرح 2012ء اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان صحافیوں کے لیے عراق کے بعد دوسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے برعکس دسمبر 2014ء میں آئی جے ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2013ء میں 14 صحافیوں نے اپنی جانیں گنوائیں جو کہ دنیا بھر میں صحافیوں کی ہلاکت کی سب سی بڑی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو دھمکیاں دینا اور ان پر تشدد کرنے کے متعدد واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس طرح دوسرے نمبر پر ملک شام رہا جہاں بارہ صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان تاحال صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک ہے، مگر پھر بھی پاکستان میں صحافت ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس میں بہتری آرہی ہے۔

کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نامی تنظیم کے مطابق 1992ء سے 2013ء تک 52 صحافی پاکستان میں اپنے کام کے دوران میں قتل کیے گئے ہیں جن میں سب سے زیادہ 2004ء سے اب تک مارے جاچکے ہیں. (yaghistan.com)

پاکستان جیسے ملک میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ صحافتی برادری کو بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہے اور صحافیوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کو پیشہ ورانہ تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ تاکہ صحافی اپنے کام کے دوران میں یک طرفہ رپوٹس سے گریز کریں اور خاص کر شورش زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا گروپس جن میں اخبارات، ٹی وی، ریڈیوز اور ویب نیوز شامل ہیں، صحافیوں کے تحفظ کے لیے وہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں جو ضروری ہیں اور متعدد صحافی صرف لاپروائی اور کم علمی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔