اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ جنریشن گیپ (Generation Gap) کسے کہتے ہیں، تو مَیں اُسے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک پوسٹ جو عربی زبان میں تھی کا ترجمہ پیش کرنا چاہوں گا، جس کے بعد مجھے امید ہے کہ اس اصطلاح کی سمجھ آجائے گی۔
ایک بوڑھا آدمی عدالت میں داخل ہوا، تاکہ اپنی شکایت (مقدمہ) قاضی کے سامنے پیش کرسکے۔ قاضی نے پوچھا: ’’آپ کا مقدمہ کس کے خلاف ہے؟‘‘
اس نے جواباً کہا: ’’اپنے بیٹے کے خلاف۔‘‘
قاضی حیران ہوا اور پوچھا، کیا شکایت ہے؟
بوڑھے نے جواب دیا، مَیں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں۔
قاضی نے کہا، یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے لیے دلایل سننے کی ضرورت ہی نہیں۔
بوڑھے نے کہا، قاضی صاحب! اس کے باوجود کہ مَیں مال دار ہوں اور پیسوں کا محتاج نہیں…… لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں۔
قاضی حیرت میں پڑگیا اور اُس سے اُس کے بیٹے کا نام اور پتا لے کر اُسے عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔ بیٹا عدالت میں حاضر ہوا، تو قاضی نے اس سے پوچھا، کیا یہ آپ کے والد ہیں؟
بیٹے نے کہا،جی ہاں! یہ میرے والد ہیں۔
قاضی نے کہا، انہوں نے آپ کے خلاف مقدمہ دایر کیا ہے کہ آپ ان کو ماہانہ خرچہ ادا کرتے رہیں۔ چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔
بیٹے نے حیرت سے پوچھا، وہ مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جب کہ وہ خود بہت مال دار ہیں اور انہیں میری مدد کی بالکل ضرورت نہیں؟
قاضی نے کہا، یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے اور وہ اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔
بوڑھے نے درمیان میں بولتے ہوئے کہا، قاضی صاحب! اگر آپ اس کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کا حکم دیں، تو مَیں خوش ہوجاؤں گا۔ بشرط یہ کہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بلا تاخیر خود آکر دیا کرے۔
قاضی نے کہا، بالکل ایساہی ہوگا۔ یہ آپ کاحق ہے۔
پھر قاضی نے حکم جاری کیا کہ فُلاں ابنِ فُلاں اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بلا تاخیر خود اپنے ہاتھ سے دیا کرے۔
کمرۂ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھا، اگر آپ برا نہ مانیں، تو مجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دایر کیوں کیا تھا…… جب کہ آپ مال دار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا ہے؟
بوڑھے نے روتے ہوئے کہا، قاضی محترم! مَیں اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے ترس رہا ہوں…… اُس کو اُس کے کاموں نے اتنا مصروف کر دیا ہے کہ مَیں ایک طویل زمانے سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ہوں…… جب کہ مَیں اپنے بیٹے کے ساتھ شدید محبت رکھتا ہوں…… اور ہر وقت میرے دل میں اس کا خیال رہتا ہے۔ یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا…… حتیٰ کہ ٹیلی فون پر بھی! اس مقصد کے لیے کہ مَیں اسے دیکھ سکوں…… چاہے مہینا میں ایک دفعہ ہی سہی…… اس لیے مَیں نے یہ مقدمہ درج کیا تھا۔
یہ سن کر قاضی بے ساختہ رونے لگا اور ساتھ دوسرے بھی۔ قاضی نے بوڑھے باپ سے کہا، اللہ کی قسم اگر آپ پہلے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کرتے، تو مَیں اس کو جیل بھیجتا اور کوڑے لگواتا۔
بوڑھے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا، سیدی قاضی! آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا۔
کاش! بیٹے جانتے کہ ان کے والدین کے دلوں میں ان کی کتنی محبت ہے! اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے، میری دعا ہے کہ اللہ پاک سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔