چڑھتے سورج کی سرزمین، دید و شنید

میں ایک عالی شان اسٹور کے اندر ایک الماری کے نچلے خانے میں اپنی مرضی کی چیزیں ڈھونڈنے کے لئے جھکا ہوا تھا کہ ایک گول مٹول خوبصورت زنانہ چہرہ جو اوپر سے نیچے کی طرف یوں نمودار ہوا جیسا کہ کمپیوٹر سکرین پر کوئی وینڈو پاپ ڈاؤن ہوتی ہے۔ گلابی گالوں والے اس گول مٹول چہرے کی مسکراہٹ سمے جب ہونٹ کھلے، تو اندر سفید چمکیلے دانتوں سے خوشبودار جھونکا میرے چہرے سے مس ہوتا ہوا گزر گیا۔’’ایکا گانا سیما شیتاکا؟‘‘ اس کے پتلے چاکلیٹی ہونٹوں کی لرزش سے یہ الفاظ نکلے اور میرے سر کے اوپر گزر گئے۔ میرے چہرے پر سوالیہ تاثرات بھانپتے ہوئے اس نے انگریزی میں مجھ سے سوال کیا "?Can I help you, sir” جواباً میں نے چاکلیٹ کا پوچھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ مجھے چاکلیٹ کے خانے میں لے گئی اور خوش اخلاقی سے’’ اریگا تو گوزائی ماست‘‘(یعنی آپ کا بہت بہت شکریہ) کہتے ہوئے احتراماً جھکی اور چلی گئی۔ یہ لمبی چوڑی گول مٹول چہرے والی دلکش دوشیزہ ’’کیکو‘‘ تھی جو ٹوکیو کے روپنگی نامی جگہ میں ایک سپر اسٹور کے ملازمہ تھی، جس سے میری یہ پہلی ملاقات بعد میں دوستی میں بدل گئی۔

جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو (فوٹو: فضل خالق)

مجھے کئی سالوں سے جاپان دیکھنے کی خواہش تھی، مگر وسائل کی کمی اور یقینی ویزہ نہ حاصل کرنے کے ڈر سے وہاں جانا ممکن نہ تھا۔ میں نے ایک دن سوات سے تعلق رکھنے والے انتہائی محترم اور اعلیٰ پایہ کے شاعر جناب حنیف قیسؔ صاحب سے ایک دفعہ سنا تھا کہ جو چیزیں انسان کے تصورات میں آتی ہیں، چاہے وہ ناممکن ہی کیوں نہ لگیں، وہ ایک دن عملی طور پرحقیقت کا روپ دھارتی ہیں۔ یہ بات میرے حوالے سے بالکل سچ ثابت ہوئی۔ کیوں کہ بچپن ہی سے میں یورپ اور خاص کر جرمنی جانے اور گھومنے پھرنے کا شوقین تھا۔ پر حالات ایسے تھے کہ میرا وہاں جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ تاہم بچپن کے سنہری دور کے خوابوں سے ابھی نکلا ہی تھا اور جوانی کی دہلیز پر پاؤں رکھا ہی چاہتا تھا کہ میں معاشی گرداب میں پھنس گیا اور لمبے عرصے تک اچھی نوکری کی تلاش میں بھٹکتا رہا۔ جوانی کے دور میں بہت کچھ کھویا اور یوں زندگی بس رزق کی تلاش میں ہی بسر ہوتی رہی، مگر اونچی اڑان اور خوابوں نے کبھی ساتھ نہیں چھوڑا۔ بڑوں سے سنتا چلا آ رہا تھا کہ حرکت میں برکت ہوتی ہے۔ اس لئے ایک دوست کی وساطت سے دبئی میں نوکری کا موقع ملا۔ بس جب سے دبئی جانے کی حرکت کی ہے، تب سے برکت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ جب میرے تصوارت کو پر لگے اور میں واقعی جرمنی میں تھا، تو مجھے یقین ہوا کہ انسان جس چیز کی خواہش اور اس کو پورا کرنے کے لئے تگ و دوکی زحمت کرتا ہے، تو اللہ تعالی اسے ضرور پوراکرتا ہے۔یوں مجھے نہ صرف اپنے خوابوں میں دکھنے والے ممالک جانے کا موقع ملا بلکہ وہاں ایوارڈز اور انعامات سے بھی نوازا گیا۔ میں جس بھی ملک جانے کی خواہش کرتا، اللہ تعالی پورا کرتا۔ یوں ایک دن میرے تصورات کی اڑان مجھے ٹیکنالوجی کے دیوتا جاپان کی طرف لے گئی۔ اور ایک آج کا دن ہے کہ جاپان کی سرزمین پر کھڑا ہوں۔ میں جاپان جانا چاہتا تھا اور وہ بھی ’’بالکل مفت۔‘‘ بس کیا ہوا کہ مجھے جاپانی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر ایشیا لیڈر شپ فیلو پروگرام کے بارے میں معلوم ہوا ۔ وقت ضائع کئے بغیر میں نے طریقۂ کار اور اس میں منتخب ہونے کے مراحل کے بارے میں سیکھا۔ بس کیا تھا کہ میں نے تمام لوازمات پورے کئے اور فیلوشپ کے لئے اپلائی کیا۔ خوش قسمتی سے میں ایشیا بھر کے ان سات افراد میں شامل تھا جن کی سلیکشن اس پروگرام کے سال 2017ء کے مرحلے کے لئے ہو ئی تھی۔ قصہ مختصر میں سات ستمبر کو پی آئی اے کی پرواز سے اسلام آباد سے ٹوکیو کے لئے روانہ ہوا۔ رات کو ساڑھے دس بجے جہاز روانہ ہوا اور تقریباً دو گھنٹے بیجنگ (چین) میں رکنے کے بعد میں آٹھ گھنٹے پینتالیس منٹ کے سفر کے بعد دن کو تقریباً ایک بجے ٹوکیو کے بین الاقوامی ہوائی اڈہ ’’نریتا‘‘ پہنچا۔ جہاز سے اترنے کے بعد میں نے جب ہوائی اڈے پر قدم رکھا، تو احساس جاگ اٹھا کہ واقعی ایک ترقی یافتہ ملک کے ہوائی اڈے پر قدم رنجہ فرما گیا ہوں۔ ائیرپورٹ نہ صرف صاف ستھرا تھا بلکہ خوبصور ت اور پرشکوہ بھی تھا۔ یہاں کا امیگریشن نظام بھی دوسرے تمام ممالک سے مختلف تھا جس کا عملہ انتہائی شفیق اور بااخلاق تھا۔ کچھ لمحوں کے لئے مجھے خوف لاحق ہوا کہ ایک پاکستانی ہونے کے ناتے عملہ مجھ سے دنیا کے باقی ممالک کے امیگریشن عملے کی طرح اضافی پوچھ گچھ کرے گا، اس کے لئے میں ذہنی طور پر تیار بھی تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور جاپانی عملے نے مجھ سے بالکل ویسے ہی برتاؤ کیا جیسا کہ وہ دوسرے ممالک والوں سے کررہے تھے۔ یہاں کا نظام کمپیوٹرائزڈ ہے جس میں پہلے غیر ملکیوں کو ایک کمپیوٹرائزڈ بوتھ پر جانا پڑتا ہے، جہاں عملے کے افراد لوگوں کی معاونت کرتے ہوئے پاسپورٹ کو سکین کرکے ایک کارڈ پرنٹ کرتے ہیں اور ایک قطار میں کھڑے ہونے کے لئے اشارہ کرتے ہیں۔ میں بھی ایک قطار میں کھڑا ہوا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ جوں ہی میری باری آئی، میں آگے بڑھا اور کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص کو پاسپورٹ تھما دیا۔ باقی کاغذات دینے کی تیاری میں ہی تھا کہ انہوں نے مجھے کاؤنٹر پر لگے ہوئے کیمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہاں دیکھیں۔‘‘ میں نے کیمرے کی طرف دیکھا اور کچھ ہی دیر بعد انہوں نے پاسپورٹ واپس کیا اور اپنی زبان میں کچھ فرماتے ہوئے مجھے رخصت کیا۔ میں حیران تھا کہ عملے کے افراد نے مجھ سے سوالات کیوں نہیں کئے؟ انہوں نے پاکستان کا پاسپورٹ دیکھ کر مجھ پر شک بھی نہیں کیا اور مجھ سے دنیا کے باقی ممالک کے شہریوں کی طرح یکساں برتاؤ بھی کیا۔ یہ دیکھ کر مجھ میں جیسے نئی جان آگئی اور میں احساس کمتری کی دلدل سے بھی نکل آیا۔ کیوں کہ مجھے اس وقت لگا کہ میں بھی دنیا کے باقی ماندہ انسانوں کے جیسے ہی قابل احترام ہوں اور یہ پہلی دفعہ جاپان کے امیگریشن حکام نے مجھے احساس دلایا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے میں درجن بھر ممالک کے دورے کرچکا ہوں اور ہر ملک کے امیگریشن عملہ نے مجھ سے کئی الٹے سیدھے سوالات کئے ہیں۔ یہاں تک کہ سری لنکن اور اینڈونیشین امیگریشن حکام نے بھی مجھ سے کئی غیر ضروری سوالات کئے ہیں۔ اس وقت مجھے یہ سوچ کر کف افسوس ملنا پڑا کہ ہم سری لنکا جیسے غریب ملک کے لئے بھی قابل قبول نہیں رہے۔ اس دن کے بعد سے میں بین الاقوامی ائرپورٹ پر پاسپورٹ چھپائے رکھتا تھا لیکن جاپان میں مجھے اپنی شناخت پر خوف نہیں بلکہ فخر محسوس ہورہا تھا۔
ائیرپورٹ ہی کے ایک کاؤنٹر سے میں نے ائیرپورٹ لیموزین بس کا ٹکٹ لیا اور ’’ٹوکیو‘‘ کے لئے روانہ ہوا جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد مجھے منزل مقصو  پر اتار گئی۔ وہاں سے میں نے ٹیکسی پکڑی اور انٹرنیشنل ہاؤس آف جاپان گیا۔ اسے مختصراً آئی ہاؤس کہتے ہیں، ٹوکیو کے ’’روپنگی‘‘ اور ’’آذابو جوبان‘‘ نامی جگہ میں واقع ہے جو یہاں کا پوش علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکسی جدید اور دیوقامت عمارتوں اور پلازوں کے درمیان سے گزرتے ہوئی ’’آئی ہاؤس‘‘ کے بیرونی گیٹ میں جونہی داخل ہوئی، تویک دم سب کچھ مختلف نظر آیا۔ عمارت سے لے کر یہاں کی ہر چیز میں عجیب سی کشش تھی۔ گیٹ کے دونوں جانب بڑے بڑے سیاہ پتھروں کی دیوار اور اوپر پودے اور درخت قدامت اور دلکشی کا حسین امتزاج دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں ہر چیز میں تکمیل اور تمانیت نظر آ رہی تھی۔ جب میں ٹیکسی سے اترا اور شیشے کے گیٹ کے قریب پہنچا، تو دروازے خود بہ خود کھل گئے۔

نریتا ائیرپورٹ پر ملنے والی لیموزین بس (Photo: keywordsuggest.org)

اندر جاتے ہوئے میری پہلی نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا کہ اپنا موبائل فون بند کر دیں۔ کیونکہ اس سے یہاں موجود دوسرے لوگوں کی سرگرمیوں میں خلل کا خدشہ ہوتا ہے۔ (جاری ہے)

………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔