امریکی فورسز نے 3 جنوری کو بغداد ائیرپورٹ کے کارگو کے قریب دو گاڑیوں پر ڈرون کے ذریعے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ایرانی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور ایرانی ملیشا "پاپولر موبلائزیشن فورس” (پی ایم ایف) کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی سمیت دیگر کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کے لیے امریکی دفاعی کمپنی ’’جنرل اٹامکس‘‘ کی تیار کردہ "ریپئر ڈرون ایم کیو نائن” کا استعمال کیا گیا۔ یہ 2007ء سے امریکی افواج کے استعمال میں ہے۔ اس ڈرون کو دنیا کا مہلک اور خطرناک ترین ڈرون کہا جاتا ہے۔ یہ انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے، کم سے کم وقت میں ہدف کو نشانہ بنانے، طویل فاصلے تک مار کرنے والے کئی اقسام کے میزائل اور بم بھی لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی قیمت ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر ہے۔ اس کے پروں کی لمبائی 66 فٹ، وزن 900 پاؤنڈ (2 ہزار 222 کلو گرام) ہے۔ یہ ڈرون 25 ہزار فٹ بلندی پر 1,200 میل تک کی پرواز کرسکتا ہے۔
قارئین، جنرل قاسم سلیمانی ایرانی عوام کے ہیرو تب بنے، جب انہوں نے سابق عراقی صدر مرحوم صدام حسین، داعش اور امریکہ کے خلاف کردار ادا کیا۔ انہیں ایران میں داعش کے خلاف کارروائی کی بدولت شہرت ملی اور عوام میں پذیرائی حاصل کی۔ 1980ء تا 1988ء ایران عراق جنگ، سلیمانی نے اپنے نام کی، اور بہت جلد ترقی کرتے ہوئے سینئر کمانڈر بن گئے۔ 1998ء میں القدس فورس کے کمانڈر بننے کے بعد جنرل سلیمان نے بیرونی ملک کارروائیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اثر میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے اتحادی دیگر گروہوں کی ہر ممکنہ مدد کی، اور ایرانی وفادار ملیشاؤں کا ایک نیٹ ورک تیار کیا۔ 2003ء میں عراق پر امریکی جارحیت کے بعد وہاں سرگرم گروہوں کے ذریعے امریکی اڈوں اور مفادات کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کی۔ انہوں نے 2011ء میں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف شروع ہونے والی مسلح مزاحمتی تحریک سے نمٹنے کی حکمتِ عملی بھی بنا کر دی۔ ان کی حکمتِ عملی اور روسی فضائی مدد نے باغیوں کے خلاف جنگ کا پانسہ پلٹنے میں مدد کی۔ اس میں کوئی دو راہے نہیں کہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں جنرل سلیمانی کو نشانہ بنایا گیا۔ حملے کے بارے میں پنیٹاگون کا کہنا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کا مقصد ایرانی حملوں کو روکنے، امریکی اہلکاروں کو تحفظ دینے اور ایران کے مستقبل کے منصوبوں کو ناکام بنانا تھا۔
جنرل قاسم کی شہادت پر ایران نے تین دن سوگ منانے کا اعلان بھی کیا۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ ’’آیت اللہ علی خامنہ ای‘‘ نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سخت انتقام ان مجرموں کا منتظر ہے، جن کے ہاتھ جنرل اور دیگر شہیدوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ امریکہ کو بدلہ چکانا ہوگا۔
عسکری تنظیم حزب اللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قاتلوں کو سزا دینا ہر جنگجو کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح ایرانی پارلیمنٹ نے امریکی فورسز کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد منظور کی۔
ڈرون حملہ میں ایرانی جنرل کی ہلاکت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ جنرل قاسم کو بہت پہلے ہلاک کرنا چاہیے تھا۔ ایرن نے کبھی جنگ نہیں جیتی، لیکن مذاکرات میں کبھی ایران کو شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دھمکی دی ہے کہ ایران ہمارے ہوتے ہوئے ایٹمی ہتھیار نہیں بناسکتا۔ ممکنہ ایرانی حملے کے جواب میں ایرانی قیادت کو نشانہ بنایا جائے گا، اور امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کے بعد ایران کا محفوظ رہنا ممکن نہیں ہوگا۔
ایران نے بھی جنرل قاسم پر حملے کے جواب میں عراق میں امریکہ کے دو فوجی اڈوں عین الاسد اربیل اور تاجی کیمپ پر ایک درجن سے زیادہ بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ ایرانی سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حملے میں 80 افراد ہلاک ہوئے۔ کوئی میزائل روکا نہ جا سکا۔ اس حملے کا نام ’’آپریشن سلیمانی‘‘ رکھا گیا۔
اس طرح جنرل قاسم پر حملے کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر نمبر 51 کے تحت کیا گیا ہے، جب کہ دوسری طرف ایران بھی اپنے میزائل حملوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے چارٹر نمبر 51 کا جواز پیش کر رہا ہے۔ مذکورہ شق کے تحت حملہ آور ملک پر لازم ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو فوری طور پر خبر مع ثبوت دے کہ ایسی کارروائی کیوں کی گئی اور اس کے دفاع کو کیا خطرات لاحق تھے؟ امریکہ نے اس شِق کی خلاف ورزی کی اور ایران نے بھی اس کا جواب دینا اپنا حق سمجھا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں طرف سے دھمکی آمیز بیانات کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایرانی حملے کے بعد امریکی قیادت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اور اطلاع یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نے جنرل کونسل کے ارکان کو خطوط لکھے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور جنگ نہیں چاہتے۔ اسی طرح کا خط ایران بھی لکھ چکا ہے۔
اقوامِ متحدہ بنانے کا مقصد اور نصب العین بھی یہ تھا کہ کوئی ملک دوسرے ملک کی خود مختاری میں مداخلت نہ کرے، ہر ملک اپنی سرحدوں کے اندر رہے اور ممالک کے درمیان تعلق دھونس یا دباؤ کی بنیاد پر استوار نہ ہوں، دنیا میں کوئی کمزور یا طاقت ور نہیں ہوگا، اور جن ممالک کے پاس وسائل و تجربے کی کمی ہے، اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک اس کی مدد کریں گے۔
امریکہ نے درجِ بالا اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عراق پر بغیر کسی ثبوت کے حملہ کرکے قبضہ کیا، وہاں لاکھوں انسانوں کو قتل کیا۔ افغانستان پر حملے کے لیے نائن الیون کا ڈراما رچا کر لاتعداد بے گناہ انسانوں کو قتل کیا۔ شام کے خلاف داعش نامی عسکری تنظیم خود کھڑی کرکے پورے مشرقِ وسطیٰ میں آگ و خون کی ہولی کھیلی۔ مصر، لیبیا اور یمن میں لاکھوں انسانوں کو قتل اور لاکھوں کو ہجرت پر مجبور کرتے ہوئے عالمی دہشت گرد کا کردار ادا کیا۔ امریکہ کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اپنی سرزمین کے علاوہ کسی سرزمین پر انسانی جانیں لے؟ ایسی کارروائی جنگی جرائم اور دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ امریکہ عالمی دہشت گرد ہے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔