فلسفہ کی تاریخ (تیئس واں لیکچر)

Doctor Comrade Taimur Rehman

تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا تیئس واں لیکچر ہے، مدیر)
٭ سقراط کا طریقۂ کار (Socratic Method):۔ سقراط کہتا تھا کہ”Doubt is the origin of truth.” یعنی شک اور سوال کرنا ہی آپ کو سچائی کے رستے پہ ڈالتا ہے۔
مطلب یہ کہ جب آپ شک کریں گے، تو آپ سوال کریں گے…… جب سوال کریں گے، تو اس میں سے جواب تلاش کریں گے۔ پھر اُن جوابات کے نتیجے میں مزید آگے سوال بنیں گے اور اس طرح یہ عمل (Process) چلتا رہے گا۔ آپ ایک مسلسل سچائی کے جستجو میں رہیں گے، یعنی ہر فلسفی کا بنیادی کام ہی یہی ہے کہ سوال پوچھے۔
دوسرا یہ کہ سقراط یہ سمجھتا تھا کہ صرف ہم نے کسی اور سے سوال نہیں پوچھنے، بلکہ سب سے اہم وہ سوالات ہیں، جو ہم نے اپنے آپ سے پوچھنے ہیں یعنی "Self Examination” اپنے آپ سے سوال کرنا کہ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے، آپ نے جو کام کیا یا کررہے ہیں، وہ درست ہے بھی کہ نہیں……؟
اس کے علاوہ یونان کے قدیم فلسفے میں بتایا جاتا تھا کہ”Know thyself.” اس سے مراد ان کی یہ تھی کہ ’’اپنی تقدیر کو پہچانو!‘‘
مگر سقراط کے مطابق "Know thyself” کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے آپ سے سوال پوچھیں کہ اچھائی کیا ہے، برائی کیا ہے اور زندگی کا مقصد کیا ہے؟
سقراط کا یہ کہنا تھا کہ”The unexamined life is not worth living.” یعنی اگر آپ نے اپنی زندگی کے حوالے سے سوال ہی نہیں پوچھے، تو یہ آپ کی مکمل طور پر بے کار زندگی ہے۔
سقراط اپنے حوالے سے بھی یہی کہتا تھا کہ "What I do not know, I do not think I know.” یعنی جو مَیں نہیں جانتا، اُس کے حوالے سے میں یہ سوچتا بھی نہیں کہ مَیں اُس کو جانتا ہوں۔ لہٰذا اس کے حوالے سے میں سوال پوچھتا ہوں، مسلسل اس کی سچائی و گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سقراط نے اپنے زمانے کی بنیادی چیزوں پر سوال پوچھنا شروع کیا، جیسے:
٭ اچھائی اور برائی کیا ہے؟
٭ علم کیا ہے؟
٭ بہادری کیا ہے؟
٭ عدل و انصاف کیا ہے؟…… وغیرہ۔
٭ سقراطی مکالمہ (Socratic Dialectics):۔ سقراط کا جو طریقہ تھا، اُس کا نام ہے ’’سقراط کا جدلیاتی مکالمہ‘‘ یا ’’صرد سقراطی مکالمہ‘‘۔
"Dialectics” کے معنی کچھ یوں بنتے ہیں: "Di means Two” اور "Lectics means Words” یعنی دو نقطۂ نظر کا ٹکراؤ۔
اینگزیمینڈر سے سقراط نے یہ تصور (Concept) لیا۔
اب جو دو نقطۂ نظر کا ٹکراو ہورہا ہے، یعنی ایک جو دعوا ہے…… اور ایک جو اُس پر سوال ہے، تو اُس سے سقراط یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ کوئی بھی دعوا جو ہے، اُس کی بنیاد پر کئی اور دعوے ہیں۔
سقراط یہ چاہتا تھا کہ ہم دراصل اس دعوے کی جو بنیاد ہے، اُس تک پہنچیں اور یہ دیکھیں کہ اُس کی بنیاد میں کہیں کوئی ایسا دعوا تو نہیں کہ جو اسی میں ہمارے کسی اور دعوے کے متضاد ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سقراطی مکالمہ کی بنیاد ایک اصول پر ہے، جس کو ہم کہتے ہیں: "Principal of non contradiction.” یعنی کوئی بھی چیز دوسری چیز کی متضاد کھڑی نہیں ہوسکتی…… کوئی بھی دعوا دوسرے دعوے کے متضاد کھڑا نہیں ہوسکتا…… اور اگر ہم کسی دعوے کے حوالے سے سوال پوچھتے چلے جائیں، اور اُن سوالات و جوابات کے سلسلے کے اندر اگر ہمیں کوئی ایسے دو دعوے نظر آئیں، جوکہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں، تو اس کا مطلب پھر یہ ہے کہ ہم نے اپنی سوچ میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی کی ہے اور اُسی غلطی کو تلاش کرنے کے لیے سقراط ڈائلیکٹکس (Dialectics) کا استعمال کرتا تھا۔
سقراط اپنے حوالے سے بھی کہتا تھا، اگرچہ وہ خود انتہائی ذہین تھا، لیکن وہ پھر بھی یہ کہتا تھا کہ”I know only one thing that I know nothing.” یعنی مَیں صرف یہ جانتا ہوں کہ مَیں کچھ نہیں جانتا۔
لہٰذا وہ دوسروں کو یہ نہیں کہتا تھا کہ مَیں آپ کو جواب دیتا ہوں بلکہ وہ اس طرح سے پیش آتا تھا کہ مجھے تو کچھ نہیں معلوم…… اچھا آپ بتائیں کہ کیا درست ہے…… اور اس پر سقراط سوال پوچھتا تھا۔
یعنی سقراط یہ ظاہر کرتا تھا کہ مجھے تو کچھ نہیں معلوم…… حالاں کہ وہ تھا نہیں…… یہ اُس کے فلسفی طریقۂ کار کا ایک حصہ تھا۔
اس کے علاوہ سقراط کو یہ شوق نہیں تھا کہ وہ کسی کمرے کے کونے میں بیٹھ جائے یا پہاڑ کی چوٹی پر چلا جائے اور لکھنا شروع کردے، بلکہ سقراط کے فلسفے طریقہ یہ تھا کہ وہ مارکیٹ (بازار) میں جایا کرتا تھا اور وہاں لوگوں سے سوال پوچھتا تھا۔
مطلب یہ کہ اُس کا فلسفہ سکھانے کا جو طریقہ تھا، وہ بالکل یہ نہیں تھا کہ وہ اُستاد ہیں، اور جو لوگ اُس کی بات سن رہے ہیں، وہ شاگرد ہیں…… بلکہ اُس کے مطابق جس پر وہ سوال کرتا تھا، اُس کو وہ اُستاد سمجھتا تھا اور خود کو شاگرد۔
اس نقطۂ نظر کو سقراط اس طرح سے بیان کرتا تھا کہ میں کوئی اُستاد نہیں ہوں، میرا کام یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں جو خیال اور تصور ہے، اُس کو پیدا کرنے اور اس کو صحیح سمت دینے میں، میں مدد کرسکتا ہوں…… یعنی دوسرے کے اندر جو پوشیدہ علم ہے، اُس کو سقراط نمایاں کرنے میں دوسروں کی مدد کرتا تھا۔
اسی کے تناظر میں، ہم اپنی عام زبان میں اور آسانی سے سمجھنے کے لیے سقراط کا ایک ڈائیلاگ (Dialogue) یہاں ذکر کرتے ہیں۔
٭ سقراط بمقابلہ لیچس(Socrates vs Laches):۔
سقراط:۔ میرا ایک سوال ہے کہ بہادری کیا چیز ہے؟
لیچس:۔ بہادری یعنی ڈٹ جانا۔
سقراط:۔ اس کا مطلب ہے کہ بہادری ایک اچھی چیز ہے، ہے نا ؟
لیچس:۔ ہاں جی! اس طرح سے ہم کَہ سکتے ہیں۔
سقراط:۔ تو کیا ہم غلط چیز پر بھی ڈٹ سکتے ہیں؟
لیچس:۔ ہاں جی! یہ بات بھی ٹھیک ہے۔
سقراط:۔ اس کا مطلب اگر ہم غلط چیز پر ڈٹ جائیں، پھر تو یہ اچھی چیز نہ ہوئی۔
لیچس:۔ جی، یہ بات بھی ٹھیک ہے۔
سقراط:۔ اس کا مطلب…… بہادری جو ہے، وہ جب کسی اچھی چیز پر بندہ ڈٹ جائے، تب اُس کو بہادری کہتے ہیں؟
لیچس:۔ ہاں جی! یہ بھی مناسب بات ہے۔
سقراط:۔ اس کا مطلب…… بہادری جو ہے، ڈٹنا نہیں…… بلکہ وہ تو علم ہے اور علم تو بہت وسیع چیز ہے۔ بہادری علم کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔ مکمل علم بھی بہادری نہیں ہوسکتی؟
لیچس:۔ بالکل یہ بات بھی ٹھیک ہے۔
سقراط:۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی تک ہمیں پتا ہی نہیں کہ بہادری دراصل ہے کیا چیز!
اولین بائیس لیکچر بالترتیب نیچے دیے گئے لنکس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
6)  https://lafzuna.com/history/s-33289/
7)  https://lafzuna.com/history/s-33302/
8)  https://lafzuna.com/history/s-33342/
9)  https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
11) https://lafzuna.com/history/s-33390/
12) https://lafzuna.com/history/s-33423/
13) https://lafzuna.com/history/s-33460/
14) https://lafzuna.com/history/s-33497/
15) https://lafzuna.com/history/s-33524/
16) https://lafzuna.com/history/s-33549/
17) https://lafzuna.com/history/s-33591/
18) https://lafzuna.com/history/s-33611/
19) https://lafzuna.com/history/s-33656/
20) https://lafzuna.com/history/s-33705/
21) https://lafzuna.com/history/s-33760/
22) https://lafzuna.com/history/s-33862/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے