تبصرہ نگار: نوشابہ کمال 
کافی پہلے کہیں پڑھا تھا: ’’جس کا درد، اُسی کا درد…… باقی سب تماشائی‘‘
خالد حسینی کا ناول ’’آ تھاؤزنڈ سپلینڈڈ سنز‘‘ (A Thousand Splendid Suns) پڑھ کر کچھ ایسا ہی احساس ہوتا ہے۔ مختلف عالمی طاقتوں کے لیے افغانستان ایک اکھاڑا تھا، جہاں سب نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے ملک اور چند اور ممالک کے لیے ’’کاروبار‘‘ کا نادر موقع جہاں وہ اپنی اپنی دکان سجا سکتے تھے…… اور سجائی بھی گئیں پناہ گزینوں کی آڑ میں۔’’سب سے پہلے……‘‘ کے نعرے کے پیچھے چھپ کر سہولت کاری کے ذریعے ہمارے ملک کے ’’بڑوں‘‘ نے خوب کمایا۔ اپنے اپنے عقیدے کو فروغ دینے کے لیے بھی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا گیا، مگر کیا کسی نے سوچا کہ وہاں کے رہنے والے عام باشندوں پر کیا گزرتی ہوگی؟ شاید نہیں……! سچ کہوں، تو مَیں نے بھی نہیں سوچا تھا…… مگر جب یہ ناول سننا شروع کیا، تو اُن کے دُکھ کو سمجھا اور اس کا کریڈٹ مصنف کو جاتا ہے (’’ناول پڑھا‘‘ کی بجائے ’’ناول سُنا‘‘ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں واک کرتے ہوئے مختلف کتابیں سنتی ہوں۔ اس طرح مکمل توجہ دے پاتی ہوں، ورنہ پڑھنے کا وقت تو ہوتا ہے…… مگر توجہ مرکوز نہیں کر پاتی۔)
خالد حسینی افغان نژاد امریکی شہری ہیں، جو 1965ء میں کابل میں پیدا ہوئے۔ اُن کے پہلے ناول ’’دا کائٹ رنر‘‘ (The Kite Runner) نے دنیا بھر میں خوب دھوم مچائی۔ لفظ جیسے خالد حسینی کے قلم سے نکل کر مجسم ہوجاتے ہیں کہ اُن کو پڑھنے والا، اُن کا ہاتھ تھامے، اُن کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہے۔ مَیں ذکر کر چکی ہوں کہ مَیں نے یہ ناول ’’سُنا‘‘…… اور ایسا میں واک کرتے ہوئے کرتی ہوں۔ واک کرتے ہوئے میں خود کو اُن کرداروں کے آس پاس ہی پاتی ہوں…… کبھی ہرات میں، کبھی کابل کے گلی کوچوں میں اور کبھی اُس چھوٹے سے شہر میں جہاں مریم کا بچپن گزرا۔
ناول کی کہانی کے مرکزی کردار دو عورتیں (مریم اور لیلیٰ) ہیں…… جن کو وقت اور حالات ایک جگہ اکٹھا کردیتے ہیں۔ وہ اپنی اور ایک دوسرے کی بقا کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ کہانی 60ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، اور مختلف ادوار سے ہوتی ہوئی سٹوڈنٹس کے پہلے دورِ حکومت تک آتی ہے۔ ہر دور میں عورت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا ذکر ہے۔ ناول میں مخصوص قبائلی روایات اور سوچ کی عکاسی بہت اچھے انداز میں کی گئی ہے۔
مریم اپنے والدین کی ’’محبت‘‘ کی نشانی ہوتی ہے۔ ایسی محبت جو کسی روایتی بندھن میں بندھے بغیر ہی ہوجاتی ہے۔ محبت کو تو یوں بھی کسی رسمی بندھن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ضرورت ہوتی ہے، تو بس محبوب کی قربت کی…… مگر محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ہمیشہ ایک خاص نام سے پکاری جاتی ہے۔ ایک ایسی گالی، ایک ایسی سزا جو اس ’’جُرم‘‘ کی وجہ سے دی جاتی ہے، جو اُس نے کیا ہی نہیں ہوتا۔
خیر، وقت اور حالات مریم کو پہلے ہرات لائے، جہاں اُس کا باپ اپنی تین بیویوں اور اُن کے بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ پھر اُس کی شادی اُس سے دُگنی عمر کے مرد سے کر ادی جاتی ہے اور یوں وہ کابل آجاتی ہے۔ لیلیٰ اُس کی محلے میں رہنے والے ایک جوڑے کی بیٹی ہوتی ہے۔ مریم اور لیلیٰ کا بچپن ایسے دور میں گزرتا ہے، جب افغانستان پہ کمیونسٹ حکومت تھی…… جب عورتوں کو کافی حقوق اور آزادی حاصل تھی۔
بقولِ لیلیٰ کے والد (بابی): A society has no chance of success if its women are uneducated, Laila. No chance
’’بابی‘‘ کا ماننا تھا کہ تعلیم شادی سے زیادہ ضروری ہے۔”Marriage can wait, education cannot”
لیلیٰ اور مریم نے ایک خاص مذہبی سوچ رکھنے والے شدت پسندوں کا دورِ حکومت بھی دیکھا، جب عورت کا گھر سے محرم کے بغیر نکلنا منع تھا۔ عورت پر تعلیم کے دروازے تو بند کیے ہی گئے، مگر زندگی کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔
جب پاکستان میں ایک مخصوص سوچ رکھنے والا طبقہ افغانستان پر ’’سٹوڈنٹس‘‘ کی حکومت قائم ہونے پر خوش ہو رہا تھا، اُس وقت وہاں کے رہنے والے باشندے زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے تھے۔ لوگ اپنے گھروں کا سامان بیچنے پر مجبور تھے۔ کچھ نے اپنے بچوں کو بھوک سے سسکتے ہوئے مرتا دیکھنے سے بہتر سمجھا کہ وہ اُن کی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں۔ دُنیا بھر میں شور اُٹھا تھا جب ’’سٹوڈنٹس‘‘ نے گوتم بدھ کے مجسمے مسمار کیے۔ اگر عام افغان سے پوچھا جاتا، تو اُس کے لیے اُن مجسموں کی کچھ اہمیت نہ تھی۔ اُسے تو اپنے بچے کے بھوکے اور بیمار ہونے کی فکر ہی کھائے ہوئے تھی ۔
قارئین! ناول پڑھتے ہوئے آپ کی آنکھیں کئی بار نم ہوں گی۔ کچھ جگہ آپ بے ساختہ مسکرا بھی اُٹھیں گے ۔
یہ ناول زندگی سے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔