بہت مشہور واقعہ ہے۔ ہم سب نے نصاب کی کتابوں میں بھی پڑھا ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ، نبی علیہ السلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، فاقوں کی نوبت ہے کچھ مدد کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پوچھنے پر ان صحابی نے بتایا کہ گھر میں صرف ایک پیالہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے وہ پیالہ منگوایا اور وہیں پر دو درہم میں فروخت فرما کر صحابی سے فرمایا کہ ایک درہم کی کلھاڑی اور رسی اور دوسرے درہم کی کھانے پینے کی چیزیں لے آؤ۔ جب وہ بازار سے واپس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کلھاڑی میں اپنے ہاتھ سے دستہ ٹھونکا اور فرمایا: ’’جاؤ! اس کلھاڑی کے ساتھ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں فروخت کیا کرو۔‘‘
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
وہ صحابی رضی اللہ عنہ چلے گئے اور حسب الحکم لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کا کام شروع کر دیا۔ چند روز بعد دوبارہ خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ گھر کے حالات ٹھیک ہوگئے ہیں اور چند درہم کی بچت بھی ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے حالات سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایاَ ’’مَیں نہیں چاہتا تھا کہ قیامت کے دن تمھارے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہو!‘‘
اب ذرا وطنِ عزیز کی طرف آ جائیے۔ ملک کی کثیر آبادی کو سرکاری طور پر ہر ماہ ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کے تحت بھیک دی جا رہی ہے۔ لوگ اس رقم کے لیے پہروں قطاروں میں لگ کر ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں۔ عجیب دھینگا مشتی کا منظر ہوتا ہے۔ ایسے میں ٹاؤٹ مافیا بھی سرگرم ہوتا ہے اور اپنا کمیشن کھرا کر کے سہولت کے ساتھ یہ رقم دلواتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری حکومت بھی بے نظیر انکم سپورٹ کے مستحقین کے لیے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ان لوگوں کو ہنرمند بنانے کے لیے عملی اقدام کرے، تاکہ یہ لوگ ملک پر بوجھ بننے کی بجائے مفید شہری بن سکیں۔ ورنہ ان لوگوں کی طرح ان کی اولادیں بھی ’’سرکاری امداد‘‘ کی منتظر ہی رہا کریں گی…… اور ملکی معیشت ناقابلِ برداشت بوجھ تلے دبتی چلی جائے گی۔
بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں ایک بل آیا کہ کیوں نہ بنگلہ دیش میں بھی بینظیر انکم سپورٹ جیسا پروگرام شروع کیا جائے……! بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں 80 فی صد ممبران نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور تجویز دی کہ ایسا روزگار کا کوئی پروگرام شروع کیا جائے کہ قوم بجائے بھکاریوں کی لائینوں میں کھڑے ہونے کے باعزت روزگار کا حصول اپنائے۔
انھوں نے گارمنٹس کو متعارف کرایا۔ آج بنگلہ دیش کی کامیابی کا یہ حال ہے کہ بنگلہ دیش یورپ کو گارمنٹس کی برآمدات میں چائینہ کے برابر جارہا ہے…… جب کہ پاکستان میں ہم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں خیرات لینے والوں کی قطاروں میں اس طرح کھڑا کیا کہ روز بروز قطاریں لمبی ہوتی جارہی ہیں۔
آج بنگلہ دیش نے اپنی خواتین کو باعزت روزگار دے کر ملکی معیشت کو بھی ترقی دی اور انھیں معاشرے کا مفید شہری بھی بنایا، جب کہ ہم نے اس کے برعکس قوم کی عورتوں اور مردوں کو بھکاری بنا دیا۔
قارئین! آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں گھریلو دست کاریوں کو فروغ دیا جائے۔ ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس کا قیام عمل میں لا کر نوجوان مرد و خواتین کو کسی نہ کسی ہنر سے آراستہ کیا جائے، تاکہ وہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ نوجوان لڑکیوں کو سلائی کورس مکمل کرنے کی صورت میں انعام کے طور پر سلائی مشینیں دی جائیں، جن کی مدد سے وہ برسرِ روزگار ہوسکیں۔
اس طرح ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت کو بھی ترقی دی جاسکتی ہے۔ گارمنٹس کو ایکسپورٹ کرکے قیمتی زرِ مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
دیہات اور قصبوں میں پلاسٹک فیکٹریاں لگاکر پلاسٹک کے برتن اور استعمال کی دیگر اشیا بنائی جا سکتی ہیں۔
مرغ بانی اور ماہی پروری کو باقاعدہ ایک مہم چلا کر فروغ دیا جا سکتا ہے۔
پلاسٹک کے جوتے بنانے والی فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔
پھولوں کی کاشت کاری کا کام بہت آسانی سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
مگر ضرورت صرف خلوصِ نیت کی ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں واحد ایسا ملک ہے جس کی 60 فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، مگر بدقسمتی سے ان کی اکثریت بے روزگار ہے۔ اس کی وجہ روزگار کے زیادہ مواقع نہ ہونا اور سرکاری نوکری کو فوقیت دینا ہے۔
گھریلو صنعتوں کو فروغ دے کر اور ہنر مندی کے مواقع فراہم کرکے کئی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً بے روزگاری پر قابو، شہروں کی طرف نقلِ مکانی کے رجحان میں کمی، ایکسپورٹ میں اضافہ، زرِمبادلہ میں اضافہ، معیشت میں استحکام اور ملک پر بوجھ بننے والے افراد میں کمی…… اور سب سے بڑھ کر باوقار قوم کے سٹیٹس کا حصول ہی ہمیں ترقی کی راہ پر گام زن کرسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔