ترجمہ: شگفتہ ناز (ناروے)
(ناروے کی لوک کہانیوں کو ترجمہ کرنے کا سلسلہ ناروے میں مقیم شگفتہ شاہ نے شروع کر رکھا ہے۔ ’’ساتواں باپ‘‘ اسی سلسلے کی چوتھی کڑی ہے، مدیر ادارتی صفحہ)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی سفرپر روانہ ہوا۔ ایک طویل سفر کے بعدوہ ایک خوش نما اورکشادہ حویلی کے قریب پہنچا۔ حویلی اس قدر شان دار تھی کہ اسے ایک چھوٹا سامحل کہا جاسکتا تھا۔ ’’یہاں رک کر سستانے میں کتنا لطف آئے گا!‘‘ اُس نے حویلی کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے سوچا۔ صدر دروازے کے قریب ہی ایک سفید بالوں اور سفید داڑھی والا آدمی کھڑا لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔
’’شام بخیر ،بڑے میاں!‘‘ مسافر نے کہا۔ ’’کیا مَیں آج کی رات آپ کے ہاں قیام کر سکتا ہوں؟‘‘
’’مَیں اس گھر کا بزرگ نہیں ہوں۔‘‘ بڑے میاں نے جواب دیا۔ ’’باورچی خانہ میں چلے جاؤ اور میرے والد سے اجازت لے لو ۔‘‘
مسافر باورچی خانے میں گیا۔وہاں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو پہلے والے بزرگ سے زیادہ عمر رسیدہ تھا اورآتش دان کے قریب بیٹھا آگ کو ہوا دے رہا تھا۔
’’شام بخیر، بڑے میاں! کیا مجھے آج رات آپ کی حویلی میں قیام کر نے کی اجازت مل سکتی ہے؟‘‘ مسافر نے پوچھا۔
’’مَیں اس گھر کا بزرگ نہیں ہوں۔‘‘ بوڑھے آدمی نے کہا۔ ’’تم بیٹھک میں چلے جاؤ، وہاں میرے والد بیٹھے ہوں گے۔ ان سے پوچھ لو۔ ‘‘
چناں چہ مسافر بیٹھک میں گیا اور میز کے قریب بیٹھے بزرگ سے اجازت طلب کی۔ وہ پہلے دونوں آدمیوں سے زیادہ بوڑھا اور لاغر تھا اوروہ کرسی پر بیٹھا کپکپا رہا تھا۔ اس کے دانت بج رہے تھے۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک موٹی سی کتاب تھامے مطالعہ میں مصروف تھا اور اس بڑی کتاب کے مقابلہ میں ایک چھوٹے سے بچے کی مانندلگ رہا تھا۔
’’شام بخیر ،بڑے میاں!کیا مجھے آپ کی حویلی میں رات بسر کرنے کی اجازت مل سکتی ہے؟‘‘ مسافر نے پوچھا۔
’’مَیں اس گھر کا بزرگ نہیں ہوں۔ تم میرے والد سے بات کرو۔ وہ اُدھرتخت پر بیٹھے ہیں۔‘‘ میز کے قریب بیٹھے بوڑھے آدمی نے کپکپاتے اور دانت کٹکٹاتے ہوئے جواب دیا۔
اب مسافر اُس بوڑھے شخص کی طرف بڑھا، جو تخت پر بیٹھا سگار پی رہا تھا، مگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے بے حد سکڑ چکا تھا اور اس کے ہاتھوں پر ایسا رعشہ طاری تھا کہ اس کے لیے سگار پکڑنا مشکل ہو رہا تھا۔
’’شام بخیر ،بڑے میاں!‘‘مسافر نے ایک بار پھر کہا۔ ’’کیا مجھے آپ کی حویلی میں رات بسرکر نے کی اجازت مل سکتی ہے؟‘‘
’’مَیں اس گھر کا بزرگ نہیں ہوں۔‘‘ اس سکڑے سمٹے شخص نے جواب دیا۔ ’’تم میرے والد سے بات کرو،وہ کمرے کے اندر بستر میں لیٹے ہیں۔‘‘
مسافر بستر کے پاس پہنچا، وہاں ایک بہت ہی بوڑھا آدمی لیٹا تھا۔ وہ اس قدر بوڑھا ہوچکا تھا کہ اس کے پورے وجود میں صرف اس کی دو موٹی موٹی آنکھیں ہی سب سے نمایاں نظر آرہی تھیں۔
’’مَیں اس گھر کا بزرگ نہیں ہوں۔ تم میرے والد سے بات کرلو۔ وہ اُدھر پنگوڑے میں لیٹے ہیں۔‘‘ اس موٹی موٹی آنکھوں والے بوڑھے شخص نے جواب دیا۔
جی ہاں، اب مسافر پنگوڑے کے قریب گیا۔ وہاں ایک انتہائی ضعیف آدمی لیٹا تھا۔ اس کا جسم اس قدر سکڑ چکا تھا کہ وہ ایک نومولود بچے کے جسم سے بڑا نہیں تھا۔ اگر اس کے گلے سے کبھی کبھار خرخراہٹ کی آواز نہ نکلتی، تو مسافر کو پتا ہی نہ چل سکتا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔
’’شام بخیر، بڑے میاں! کیا مجھے آپ کی حویلی میں رات بسر کرنے کی اجازت مل سکتی ہے؟‘‘ مسافر نے پوچھا۔
اسے اپنی بات کے جواب کے لیے کافی دیر انتظار کرنا پڑا اور پھر اس سے بھی زیادہ وقت میں بوڑھے آدمی نے اپنی بات مکمل کی۔ اس نے بھی وہی جواب دیا جو اس سے پہلے یکے بعد دیگرے اس گھر کے دوسرے بزرگ دے چکے تھے۔
’’مَیں اس گھر کا بزرگ نہیں ہوں۔ تم میرے والد سے بات کرلو۔ وہ ادھر دیوار پر لٹکے اس سینگ کے اندر بیٹھے ہیں۔‘‘
مسافر نے بڑے غور سے دیوارکی طرف دیکھا اور بالآخر اسے دیوار پر لٹکتا ایک سینگ نظر آ گیا، مگر اس سینگ کے اندر وہ جس شخص کو ڈھونڈ رہا تھا، وہ ایک کم زور انسان کی پرچھائیں سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔ مسافر اسے دیکھ کر اس قدر خوف زدہ ہوا کہ اس نے تقریباً چیختے ہوئے پوچھا: ’’شام بخیر ،بڑے میاں! کیا مجھے آپ کی حویلی میں رات بسر کرنے کی اجازت مل سکتی ہے ؟ ‘‘
سینگ میں سے ایک چڑیا کی سی ہلکی سی آواز اُبھری، جسے وہ صرف اس حد تک ہی سمجھ سکا: ’’ہاں، میرے بچے۔‘‘ اور اس کے بعد دستر خوان پر مزے مزے کے پکوان اور قسم قسم کی شرابیں سجا دی گئیں۔ جب وہ خوب پیٹ بھر کر کھا پی چکا، تو اس کے لیے قطبی ہرن کے بچھڑے کی کھال سے آراستہ ایک آرام دہ بستر لگا دیا گیا۔ یہ سب اہتمام دیکھ کرمسافر بے حد خوش ہوا۔
آخرِکار وہ گھر کے اصل بزرگ تک پہنچ ہی گیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔