سنٹرل لندن سے سڑک کے ذریعے ہیتھرو ایئر پورٹ کی طرف جائیں، تو ہائیڈ پارک کے دوسری طرف نائٹس برج میں دنیا کے مہنگے ترین سٹور ہیرڈز کی بلند و بالا اور جاذبِ نظر عمارت نظر آتی ہے جس سے آگے کنزنگٹن کے علاقے میں ایک بہت ہی شان دار اور منفرد عمارت ایستادہ ہے جو کہ دراصل ’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ ہے۔
ویسے تو لندن اپنی آرٹ گیلریز، پارکوں، تھیٹرز، تاریخی عمارات، کیسینوز اور شاپنگ سنٹرز وغیرہ کے باعث دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتا ہے، لیکن اس شہر کے تقریباً 170 میوزیمز یعنی عجائب گھر بھی لندن کی انفرادیت کا ایک بڑا سبب ہیں۔
گریٹر لندن کے 10 بہترین عجائب گھروں میں پہلے نمبر پر ’’وی اینڈ اے میوزیم‘‘ ساؤتھ کنزنگٹن میں موجود ہے ۔ اس عجائب گھر میں آرٹ، ڈیزائن، فیشن اور ٹیکسٹائل سے متعلق تقریباً 2.3 ملین اشیا نمایش کے لیے رکھی گئی ہیں۔
د وسرے نمبر پر ’’برٹش میوزیم‘‘ ہے جو 1759ء میں قائم ہوا تھا۔
مقبولیت کے اعتبار سے ’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ تیسرے نمبر پر آتا ہے (جس کے لیے یہ کالم قلمبند کیا جا رہا ہے۔)
’’امپیریل وار میوزیم‘‘، ’’نیشنل میری ٹائم میوزیم‘‘، ’’لندن کینال میوزیم‘‘، ’’سائنس میوزیم‘‘، ’’ڈیزائن میوزیم‘‘، ’’لندن ٹرانسپورٹ میوزیم‘‘، ’’سرجان سوانز میوزیم‘‘ اور ’’میوزیم آف لندن‘‘ برطانوی دارالحکومت کے 10 بہترین عجائب گھروں میں شمار ہوتے ہیں۔
عجائب گھر اس لیے بھی پُرکشش اور دلچسپ ہوتے ہیں کہ ان میں ایسی منفرد اشیا اور نوادرات موجود ہوتے ہیں جو ہمیں روزمرہ کی زندگی میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ لندن کے بیشتر میوزیمز ایسے ہیں جہاں داخلے کے لیے کوئی ٹکٹ نہیں رکھی گئی۔ کئی برس پہلے جب میں پہلی بار کسی کام کے سلسلے میں کرامویل روڈ پر واقع فرانس کے سفارت خانے گیا، تو اس کے بالمقابل نیچرل ہسٹری میوزیم کی پُرشکوہ اور ہر ایک کو متوجہ کرنے والی عمارت کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ چند ہفتوں کے بعد مَیں اس میوزیم کو دیکھنے کے لیے گیا، تو پورا دن یہاں گزارنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی یہ عجائب گھر برطانیہ کا ایک اہم اثاثہ ہے، جسے 141 برس پہلے قائم کیا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اسے خوب سے خوب تر بنایا گیا۔ یہ عجائب گھر درحقیقت اس کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ خاص طور پر انگریز سائنس دان چارلس ڈارون (12 فروری 1809ء تا 19 اپریل 1882ء) کی تحقیق اور حیاتیاتی ارتقا بارے وہ سب کچھ یہاں محفوظ ہے جس کے بارے میں لوگ اب تک صرف کتابوں ہی میں پڑھتے چلے آئے ہیں۔
اس عجائب گھر میں کچھ عرصہ قبل ایک ملٹی میڈیا سٹوڈیو بنایا گیا جسے ایٹنبرا سٹوڈیو کا نام دیا گیا۔ یہ سٹوڈیو درحقیقت مقبول براڈ کاسٹر، بائیولوجسٹ اور محقق سرڈیوڈ ایٹنبرا (SIR DAVID ATTENBOROU) کو خراجِ تحسین اور ان کے تحقیقی کام اور نیچرل ہسٹری کے دستاویزی پروگرامز کو محفوظ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ مَیں سر ڈیوڈ ایٹنبرا کا بہت بڑا مداح ہوں۔ انھوں نے دنیا کے ہر برِ اعظم کے سمندروں، صحراؤں، جنگلوں، پہاڑوں، میدانوں، دریاؤں اور مستقل منجمد رہنے والے علاقوں کے جانوروں اور پودوں کے بارے میں ایسی ایسی معلوماتی فلمیں اور پروگرام بنائے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ برطانیہ میں اس وقت سمارٹ موبائل فون متعارف نہیں ہوا تھا اور لوگ شام کے وقت ٹی وی ضرور دیکھا کرتے تھے۔ اُن دنوں بی بی سی کے ایک ٹی وی چینل پر ڈیوڈ ایٹنبرا کا وائلڈ لائف بارے سلسلہ وار پروگرام ’’برڈز آف پیراڈائز‘‘ یعنی جنت کے پرندے نشر ہوتا تھا۔ یہ پروگرام دنیا بھر میں موجود خوب صورت ترین پرندوں کے بارے میں تھا۔ اس پروگرام کی ریکارڈنگ میں کئی برس لگے جس کے بعد جنت کے پرندوں کا یہ شان دار پروگرام تیار کیا گیا جس میں ان پرندوں کے بسیروں، گھونسلوں، عادات، خوراک اور نفسیات کے بارے میں ایسی معلومات کو یک جا کیا گیا، جو اس سے پہلے کبھی عام لوگوں تک نہیں پہنچی تھیں۔ مَیں نے ان تمام پروگرامز کی ویڈیو کیسٹس خریدیں جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ اگر آپ بھی اپنی اس سرزمین یا کرۂ ارض جسے سائنس دان ’’پلینٹ ارتھ‘‘ (PLANET EARTH) کہتے ہیں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور یہ معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ انسانوں کے علاوہ اس روئے زمین پر جانور، پودے اور حشرات الارض کس طرح زندگی گزارتے ہیں اور اس کائنات کی بے جان چیزوں سے ان کا کیا تعلق ہے؟ تو ڈیوڈ ایٹنبرا کے دستاویزی پروگرامز ضروردیکھیں۔ ایک جہانِ حیرت کے در آپ پر وا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ 95 سالہ سر ڈیوڈ ایٹنبرا نے اپنی پوری زندگی ’’پلینٹ ارتھ‘‘ کی کھوج لگانے میں گزاری ہے۔ اسی لیے ’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ میں ان کے نام پر ایک شان دار اور پُروقار ملٹی میڈیا سٹوڈیو بنایا گیا ہے۔ سمجھ دار اور دوراندیش قومیں اپنے بہترین لوگوں کی خدمات کا اسی طرح اعتراف کرتی ہیں۔
’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ کو دنیا بھر کے 5 ملین سے زیادہ لوگ ہر سال دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس عجائب گھر کی دیکھ بھال کے لیے تقریباً ساڑھے آٹھ سو لوگ کل وقتی ملازم ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے سائنس کے طالب علموں کی اس عجائب گھر میں دلچسپی کی وجہ سے یہاں کوئی نہ کوئی لائیو شو اور لیکچر آئے روز منعقد ہوتا رہتا ہے۔ اس میوزیم کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی جب 32 میٹر لمبے ڈائنو سار کے ڈھانچے پر نظر پڑتی ہے، تو لگتا ہے کہ آپ کسی ماورائی دنیا کا حصہ بن گئے ہیں۔
ذرا آگے چل کر دوسرے بڑے ہال کے اندر جائیں 25 میٹر لمبی بلیو ویل کا ڈھانچا آپ کو مزید حیران کر دے گا۔ اس عجائب گھر کے ہر حصے میں ایسے ایسے عجائبات موجود ہیں جو بچوں سے لے کر بزرگوں تک کو دلچسپ حیرانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ کے ہر حصے کو دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری یہ کائنات کیسے کیسے عجائبات سے بھری پڑی ہے۔ ہم نے کبھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ ویسے بھی اس کائنات کے بھید جاننے کی جستجو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ان کے سربستہ رازوں کے بارے میں غور کرتے ہیں۔ خالقِ کائنات نے اپنی آخری کتاب میں کئی بار اس اٹل حقیقت کی تنبیہ کی ہے کہ اس کی ہر تخلیق سے وابستہ رازوں میں عقل والوں اور غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں کہ موجودہ زمانے میں غور کرنے اور کائنات کے رازوں کو جاننے کے لیے کون سی اقوام سب سے آگے ہیں؟ تو اس فہرست میں مسلمانوں کا نمبر سب سے آخر میں ہوگا۔ اسی لیے ہماری آج کی دنیا میں ایجادات اور تحقیق کے معاملے میں غیر مسلم اقوام سب سے آگے ہیں۔ جب تک مسلمان علم، تحقیق، جستجو اور غور کرنے کے معاملے میں پیش پیش تھے، اس وقت تک وہ کامیاب اور کامران تھے۔ آج کی مسلمان اقوام اور ممالک جو ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہیں، لیکن علم اور تحقیق کی دولت سے محروم ہیں۔ اسی لیے بدحالی، بدامنی، افراتفری، انتہا پسندی اور ذلت نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہم تو اب اس حقیقت پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ اہلِ مغرب نے کن سنہرے اصولوں کو اپنا کر اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ اور خوش حال بنایا ہے اور کن ضابطوں کی پیروی کر کے اپنے معاشروں میں امن و امان کو فروغ دیا ہے؟
کہنے کو تو ہمارے دانش ور یہ تک کَہ دیتے ہیں کہ غیر مسلموں نے اسلام کے نظامِ مساوات، نظامِ انصاف، نظامِ زکوٰۃ، دیانت داری اور صفائی پسندی کے اصولوں کو اپنا کر ترقی کی ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے، تو مسلمان ملکوں کو کس نے ان اصولوں اور انصاف و مساوات کے نظام کو اپنانے سے روک رکھا ہے؟
وما علینا الا البلاغ……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔