ہم نے اپنے کسی کالم میں یہ گزارش کی تھی کہ اصول کی بنیاد پر ہمیں اب گذشتہ حکومت کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی بجائے موجودہ حکومت کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت کی ناکامیوں سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے اور گذشتہ دس ماہ سے جو موجودہ حکومت نے قوم کی زندگیوں کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اس پر بات کرنا چاہیے، لیکن یہ ہماری بدقسمتی سمجھ لیں کہ سابق وزیرِ اعظم جناب عمران خان بطورِ حزب اختلاف ایک حکم ران سے بھی زیادہ نا اہل اور عوام دشمن ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کی حکومت کے خاتمے پر کوئی جتنا مرضی اخلاقی و سیاسی تنقید کرے، لیکن ان کی رخصتی بہرحال ایک آئینی اور قانونی طریقۂ کار سے ہوئی…… لیکن خان صاحب نے اس تبدیلی کو ایک مہذب سیاسی راہنما کے طور پر قبول کرکے مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے کچھ زیادہ ہی دل پر لے لیا ہے۔ اس کی وجہ بے شک ان کی حکومت اور طاقت کی ہوس تو ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اس تاثر کو شدت سے قائم رکھنا چاہتے ہیں کہ پورے ملک میں بس وہی ایمان دار ہیں، جب کہ دوسرے تمام سیاسی اکابرین نہایت ہی کرپٹ، بے ایمان اور ملک دشمن ہیں۔
اب اکثر عام ذہن کے لوگ حتی کے تحریک انصاف کے بھی سمجھ دار لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے استعفا دینے اور خاص کر دو صوبائی حکومتیں توڑنے کی کیا تُک یا منطق تھی؟ کیوں کہ بظاہر یہ سراسر نقصان کا سودا ہوا…… لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ اول تو خان صاحب شخصی مفادات سے آگے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، جب کہ دوسرا اہم عنصر یہ بھی ہے کہ ’’بس مَیں ہی ایمان دار‘‘ کا منترہ قائم رکھنے کے لیے یہ کرنا بہت ضروری تھا۔ کیوں کہ اگر خان صاحب اسمبلیوں خاص کر قومی اسمبلی میں رہتے، تو پھر ان کو موجودہ حکم رانوں کو چور بناتے وقت خود کو مومن ثابت کرنا ضروری ہوتا…… اور اس پر اسمبلی میں واضح مکالمہ ہوتا۔ پھر جوابی بیانیہ آتا اور یہ صورتِ حال خان صاحب کے لیے شاید مناسب نہ ہوتی۔ اب اول تو اسمبلی میں یہ موضوع آتا ہی نہیں اور اگر آبھی جائے، تب بھی حکومت کی تمام تقاریر کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ بس یک طرفہ ٹریفک میں کس کو کیا دلچسپی ہے؟ خان صاحب تو پریس کانفرنس تک نہیں کرتے کہ کہیں ان پر کچھ غیر مناسب سوالات نہ ہو جائیں……!
لیکن قطعِ نظر ان باتوں کے ہم کو سوچنا یہ ہے کہ کیا جو نظریہ بنا یا بنا دیا گیا ہے کہ خان صاحب ہی اکلوتے دیانت دار ہیں بلکہ (نعوذ باﷲ) ان کو صادق و امین کا خطاب دینے کی جسارت کی گئی۔ حالاں کہ صادق و امین کا ٹائٹل تاریخِ انسانی میں واحد مقدس ترین ہستی حضرت محمدؐ کا اعجاز ہے، لیکن کچھ لوگوں نے ایک عام سے گنہگار شخص پر یہ لیبل تھوپ دیا۔ نہ صرف تھوپ دیا بلکہ بہت ہوشیاری سے اس کو عوام کے دماغ میں ڈال دیا گیا۔
اب صادق و امین کو رکھیں ایک طرف، کسی شخص کی ذاتی ایمان داری کا پیمانہ ہی لے لیں۔ اس کے لیے ایک عام فہم شخص کا عمومی معیار ہی کافی ہے…… یعنی اس شخص کا معیارِ زندگی اور اس کی آمدن کا موازنہ کیا ہے؟
دوم، اس کے قریبی دوست اور رشتہ دار کس کردار کے مالک ہیں؟
سوم، اس کے منتخب شدہ سرکاری و سیاسی اہل کاروں کے کارنامے کیا ہیں؟
چہارم، اس کی جماعت گروہ یا تنظیم کے عہدے دار کی شہرت کیا بنتی ہے؟
اب ذرا ایک ایک کرکے اس صورتِ حال کا جائزہ لیں۔ خان صاحب بذاتِ خود کسی رئیس خاندان کے نہیں تھے۔ ان کے دادا ایک اوسط درجے سے بھی کم کے زمین دار اور والد بس واپڈا میں انجینئر تھے…… جو کہ کرپشن کے الزام میں نکال دیے گئے تھے۔ خود خان صاحب نے ساری زندگی پروفیشنل کرکٹر کے طور پر گزاری اور ماضیِ قریب تک وہ کرکٹ میچوں کی کمنٹری کرکے پیسا بناتے رہے۔ بقول ان کے خود واحد جائیداد جو انھوں نے بنائی، وہ لندن میں ایک فلیٹ تھا کہ جس کو بیچ کر انھوں نے بنی گالہ کا گھر بنایا۔ سو اب دو بڑے گھر ایک زمان پارک لاہور اور ایک بنی گالہ اسلام آباد میں ہیں، جہاں درجنوں ملازمین ہیں۔
اب یہ تمام اخراجات مع ایک بڑی سیاسی جماعت کے کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ مزید پاکستان کیا بلکہ دنیا بھر کے معاشروں میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اولاد اور والدین کے علاوہ کوئی بھی شخص اس حد تک آپ کے اخراجات برداشت کرتا ہے نہ کرسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی بہن بھائی کرسکتا ہے…… جب کہ خان صاحب کے والدین دنیا سے جاچکے اور بچے برطانیہ میں والدہ کی کفالت میں ہیں۔ بہنیں اپنے اپنے گھروں میں اور وہ مالی طور کوئی خاص مستحکم بھی نہیں۔
اس طرح خان صاحب کے جو معروف ذاتی دوست ہیں، ان میں سے سابق کرکٹر عبد القادر (مرحوم)، احسان مانی، صلاح الدین صلو وغیرہ اس قابل بالکل پہلے تھے نہ اب ہیں۔ جب کہ سیاسی دوست مفادات کے تابع ہوتے ہیں، وہ اگر چار آنے لگاتے ہیں، تو چار سو واپس لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
زلفی بخاری، علیم شیخ، فیصل واؤڈا اور جہانگیر ترین اس کی واضح مثالیں ہیں اور عمران خان کی حکومت میں انھیں پر شدید الزامات لگے…… بلکہ شاید خان صاحب نے خود ان کو کافی حد تک ذمے دار قرار دیا۔
اب خان صاحب کے سیاسی چناو کو دیکھیں، اس میں اول کردار عثمان بزدار کا ہے۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ عثمان بزدار بظاہر قابل تھا اور نہ اس کی تحریکِ انصاف واسطے کوئی خاص خدمات ہی تھیں، تو پھر اتنے بڑے صوبے کی وزراتِ اعلا جناب بزدار کو کس حیثیت سے دی گئی…… اور مزے کی بات یہ ہے کہ عثمان بزدار کا خان صاحب کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق بھی نہ تھا، اور اب یہ بات واضح ہوچکی کہ اس کے پیچھے جمیل گجر اور فرح گوگی تھے، جو سابقہ خاتونِ اول کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔
اس طرح جہانگیر ترین کا چینی سکینڈل، عامر کیانی کا میڈیسن سکینڈل، مزید بلین ٹری، ملم جبہ سکینڈل اور پشاور میٹرو بس سروس تو بہت واضح ہیں۔ مذکورہ تمام سکینڈلز میں خان صاحب نے کسی ایک کو بھی نہ کوئی قانونی حتی کہ سیاسی سزا دی اور نہ کوئی مقدمہ بنوایا۔
خرابی کی حد یہ ہوئی کہ خیبر پختون خوا کا احتساب کا ادارہ ہی ختم کر دیا اور جسٹس وجیہ الدین جیسے شایستہ اور اچھی شہرت کے حامل شخص کو تحریکِ انصاف سے فارغ کر دیا کہ انھوں نے جماعت کے داخلی انتخابات میں پیسے کے عمل دخل کو ظاہر کیا تھا۔ اب اسلام آباد لاہور یا پشاور کے صحافتی حلقوں میں کیا سرگوشیاں ہوتی ہیں؟ اس کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیں، تب بھی منطق کی بنیاد پر یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ اگر محترم عمران خان کا کچن اور سیاست ان کے قریبی دوست نہیں چلا رہے، تو یہ اخراجات کس طرح پورے ہوتے ہیں؟ کیا کوئی بھی باشعور شخص یہ بات مان سکتا ہے کہ خان صاحب کی جماعت کے اعلا عہدے دار، کابینہ کے ارکان اور وزرائے اعلا تو کرپٹ ہیں، لیکن عمران خان نہیں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ ایک آئی جی یہ دعوا کر دے کہ میں کرپٹ نہیں ہوں، لیکن میرے تعینات شدہ ڈی پی اُو سے لے کر ایس ایچ اُو تک بے شک کرپٹ ہیں…… تو کون یقین کرے گا اس بات پر؟
دراصل بات یہ ہے کہ خان صاحب نے بہت کامیابی سے یہ تاثر پیدا کر لیا ہے، خاص کر اپنے ہارڈ کور فالورز میں اور بے شک اس میں ہماری ایجنسیوں اور عدلیہ نے خان صاحب کی واضح مدد کی۔ وگرنہ ہم جیسے لوگوں کو تو بہت پہلے سے معلوم تھا کہ خان صاحب اپنے کرکٹ کیرئیر کے دوران میں اپنی ٹیم کو چھوڑ کر محض پیسوں کے لیے کیری پیکر سیرز کھیلنے آسٹریلیا چلے گئے تھے۔ وہ کسی حد تک میچ فکسنگ میں بھی ملوث رہے۔ پھر انھوں نے شوکت خانم ہسپتال کے پیسے کہ جو لوگوں کے چندے اور امداد سے ملے تھے، کو پراپرٹی کے کاروبار میں لگا کر خاصی معقول رقم بنائی ہے۔ اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص بہت ہی آرام دہ اور پُرتعیش زندگی گزار رہا ہے، لیکن بظاہر اس کا نہ کوئی کاروبار ہے نہ ملازمت…… یا تو خان صاحب ایک بڑی پریس کانفرنس میں اپنے ذرائع آمدن عوام کے سامنے رکھیں یا پھر مہربانی کریں اور خود کو اس قریب 23 کروڑ پر مشتمل آبادی والے ملک میں اکلوتا صادق و امین مت بولیں اور یہ بول کر اس مقدس ترین ٹائٹل کی توہین کا ارتکاب نہ کریں۔
آخر میں ایک اپیل خان صاحب کے فالورز سے کہ وہ مہربانی کریں، گالیوں سے پرہیز کریں اور اس کالم کو اس کی روح کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر مَیں غلط ہوں، تو آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ اس کا جوابی بیانیہ لکھیں۔ دوسری بات، اگر یہ کالم خان صاحب کی ذات سے وابستہ ہے، تو اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ دوسرے دودھ سے دہلے ہیں، یہاں نہ تو کوئی موازنہ کیا گیا ہے اور نہ اس کا مقصد جناب عمران خان پر بس الزام تراشی ہی ہے۔ یہاں صرف عمران خان صاحب کے حوالے سے کچھ حقائق بیان کرنے کی کوشش محض اس وجہ سے کی گئی ہے، کیوں کہ خان صاحب اور ان کے فین کلب کے متحرک ارکان بس ایک فرد واحد کو ہی اکلوتا صادق و امین بنانے اور عوام کے دماغوں میں بٹھانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، وہ بھی خود ساختہ…… باقی اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے دوسرے سیاسی اکابرین پر بھی مالی کرپشن کے بہت سنگین الزامات تھے اور ہیں۔ بس فرق فقط یہ ہے کہ وہ خود یا ان کے سیاسی کارکن ان کو دن رات اکلوتا صادق و امین ثابت کرنے کیلیے اپنے 24گھنٹے ضائع نہیں کرتے…… اور دوسرا یہ میرا مشاہدہ ہے کہ دوسری جماعتوں کے کارکن اس طرح آنکھیں بند کر کے اپنے قائدین کی ہر بات کو مطلق حقیقت کا درجہ بھی نہیں دیتے، لیکن جس طرح تحریکِ انصاف کی قیادت خصوصاً عمران خان ذرا اچھوتی قسم کے صادق و امین ہیں، اُسی طرح ان کے کارکن بھی ذرا وکھری قسم کا سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہمیں بھی یہ ذرا نئی طرح کا کالم لکھنا پڑا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔