عقل بہت بڑی نعمت ہے۔ اتنی بڑی کہ گزرے وقتوں میں اس کا موازنہ بھینس سے کیا جاتا تھا اور اکثر یہ مثل سننے میں آتی کہ ’’عقل بڑی کہ بھینس!‘‘
یہ مثل عموماً اس وقت سننے میں آتی، جب کسی سے کوئی بے وقوفوں والا کام یا حرکت سرزد ہوجاتی تھی۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
قارئین! مثبت انداز میں عقل کا بروقت استعمال کیا جائے، تو بندہ بہت سے مسائل احسن انداز سے سلجھا لیتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ یہی عقل جب منفی کاموں کی انجام دہی کے لیے استعمال کی جائے، تو بندہ شیطانی راستے کا مسافر ہو جاتا ہے۔ پھر اس کا مطمحِ نظر محض اپنے نفع یا مذموم مقصد کی تکمیل ہی رہ جاتا ہے۔ دوسروں کی بھلائی سے اُسے کوئی غرض نہیں رہ جاتی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ایک روپے کے فائدے کی خاطر بندہ سامنے والے کے 100 روپے کا نقصان کر دیتا ہے۔
ہم میں سے کئی لوگ بہت سیانے بھی ہوتے ہیں۔ انھیں اپنی سیانے پن پر ناز ہوتا ہے اور اس کا اظہار برملا اور فخریہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو کبھی بحث میں جیتنے نہیں دیں گے۔ انھیں خبط ہوتا ہے کہ عقل مندی میں خود کو دوسروں سے برتر ثابت کریں۔ اس کے لیے ان کے پاس دلیلوں کے انبار ہوتے ہیں۔ سامنے والے کو لاجواب کرنے کے لیے وہ ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہیں اور آخرِکار فتح یاب ٹھہرتے ہیں۔
بے شک ایسے لوگ بحث جیت جاتے ہیں، مگر بہت کچھ ہار جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ اس رشتے کو ہارتے ہیں جس کی سبکی کرکے بحث میں جیتتے ہیں۔ جائز، ناجائز طریقے سے جیتنے کی خواہش میں وہ اپنے عزیز دوستوں کو ہار دیتے ہیں۔ وہ دوسروں کی طرف سے دیے جانے والے احترام اور عزت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ ہمیشہ جیتنے کی خواہش انھیں ضدی اور ہٹ دھرم بنا دیتی ہے، جو بجائے خود شخصی کم زوریاں بلکہ بیماریاں ہیں۔ اپنے آپ کو ہر وقت سیانا ثابت کرنے کا جنون ہر موقع پر مناسب نہیں ہوتا۔
ایک دفعہ ایک مسلمان، ایک ہندو اور ایک سکھ کو موت کی سزا سنائی گئی۔ مقررہ دن انھیں کھلے میدان میں لے جایا گیا۔ سزا پر عمل کا طریقہ یہ تھا کہ مجرم کو زمین پر لٹا دیا جاتا اور اُس کے اوپر ایک چرخی پر رسا لپٹا ہوتا، جس کے سرے پر بھاری پتھر بندھا ہوتا۔ چرخی کو گھما کر کھلا چھوڑ دیا جاتا۔ پتھر تیزی سے نیچے آتا اور مجرم کا سر کچل دیتا۔ سب سے پہلے مسلمان کو ہاتھ پاؤں باندھ کر مقررہ جگہ پر لٹا دیا گیا۔ چرخی کو کھلا چھوڑا گیا، تو رسے سے بندھا پتھر تیزی سے نیچے آیا، مگر مسلمان کے سر سے ایک فٹ اوپر آ کر اچانک رُک گیا۔ موقع پر موجود تمام لوگ اس معجزے پر حیران رہ گئے۔ انھوں نے سوچا کہ ممکن ہے کہ یہ مسلمان بے گناہ ہو اور اسے سزا دینے کا فیصلہ غلط ہو۔ سب نے آپس میں مشورہ کیا اور اسے بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہندو کی باری آ گئی۔ جب اس کی سزا پر عمل ہونے لگا، تو ایک مرتبہ پھر وہی ہوا کہ اس کے سر سے اوپر ایک فٹ کے فاصلے پر پہنچ کر پتھر رُک گیا۔ ہندو کو بھی بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا۔ اب سکھ کی باری آ گئی۔ اُسے نیچے لٹاتے ہوئے ایک سرکاری اہل کار بولا: ’’دوسرے دو تو بچ گئے، اب دیکھو تمھاری قسمت میں کیا لکھا ہے؟‘‘
سکھ اونچی آواز میں بولا: ’’اوئے بے وقوفو! رسا تو ٹھیک کرلو۔ ہر دفعہ اس میں لگی ہوئی گانٹھ چرخی میں پھنس جاتی ہے اور پتھر راستے میں ہی رک جاتا ہے!‘‘
اگر اس سیانے سکھ کا سر پتھر سے کچلا گیا تھا، تو اس میں قصور سراسر اس کی عقل کے بروقت استعمال کا تھا…… جب کہ مسلمان اور ہندو وقتی طور پر بے وقوف اور انجان بن کر بچ گئے۔
اب ایک اور واقعہ بھی پڑھتے جائیے۔ ہوٹل پر بیٹھے ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ یہ ہوٹل پر کام کرنے والا بچہ اتنا بے وقوف ہے کہ اسے یہ تک نہیں پتا کہ 500 زیادہ ہوتے ہیں یا 50؟ مَیں 500 اور 50 کا نوٹ میز رکھوں گا اور کہوں گا کہ بڑا نوٹ اُٹھا لے، تو یہ 50 کا ہی اُٹھائے گا۔ اُس نے بچے کو آواز دی اور دو نوٹ سامنے رکھتے ہوئے بولا: ’’ان میں سے زیادہ پیسوں والا نوٹ اُٹھا لو!‘‘ بچے نے 50 کا نوٹ اُٹھا لیا۔ دونوں نے قہقہہ لگایا اور بچہ واپس اپنے کام میں لگ گیا۔
پاس بیٹھے شخص نے ان دونوں کے جانے کے بعد بچے کو بلایا اور پوچھا: ’’اتنے بڑے ہو گئے ہو۔ تمھیں 50اور 500 کے نوٹ میں فرق کا نہیں پتا!‘‘
یہ سن کر بچہ مسکرایا اور بولا: ’’یہ آدمی اکثر کسی نا کسی دوست کو میری بے وقوفی دکھا کر انجوائے کرنے کے لیے یہ کام کرتا ہے اور میں 50 کا نوٹ اُٹھا لیتا ہوں۔ وہ خوش ہوجاتے ہیں اور مجھے پچاس روپے مل جاتے ہیں…… جس دن مَیں نے 500 کا نوٹ اُٹھا لیا۔ اُسی دن یہ کھیل بھی ختم ہو جائے گا…… اور ساتھ میری آمدنی بھی۔‘‘
زندگی بھی اس کھیل کی طرح ہی ہے۔ ہر جگہ سمجھ دار بننے کی ضرورت نہیں ہوتی، جہاں سمجھ دار بننے سے اپنی ہی خوشیاں متاثر ہوتی ہوں، وہاں بے وقوف بن جانا ہی سمجھ داری ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
