آج ساری دنیا کورونا کے خوف میں مبتلا ہے اور گھروں میں محصور ہے۔ جب کہ کچھ لوگ اس محصور ہونے سے تنگ ہیں، باہر نکلنا چاہتے ہیں کہ کسی کا تو روزی روٹی کا سوال ہے، اور بہت ساروں کو دولت میں مزید اضافہ کرنے کی بیماری ہے۔
جو بند ہیں وہ بھی موت کے خوف سے او ر جو نکلنا چاہتے ہیں، وہ بھی موت ہی سے ڈرتے ہیں۔ ان میں غریبوں کو تو بھوک سے مرنے کا خوف ہے، جب کہ دولت کے حریص تو دولت وثروت کا اضافہ رکنے ہی کو موت تصور کرتے ہیں۔ یہ تو چوں کہ ایک ایسی بلا اور وبا آئی ہے جو جلدی ایک دوسرے کو لگتی بھی ہے۔ اس سے اموات بھی واقع ہوتی ہیں لیکن جس انداز سے اس کے خوف کا پروپیگنڈا یا تشہیر کی جاتی ہے، اس نے اس کو اس کے اصل خطرے سے زیادہ خطرناک بنا دیا ہے۔ اس کا علاج خدا کرے جلدی نکل آئے، اور ویکسین بھی، تاکہ مرض کا علاج بھی ہو اور جس کو نہیں اس کی حفاظت بھی ہو۔ ظاہر بات ہے جس نے علاج یا ویکسین بنایا، تو ارب ہا ارب ڈالر کمالے گا۔ تو ٹھیک ہے کمائے، لیکن انسانیت کو سکون آئے، جو ڈالر لگائیں، تو انہوں نے کون سے قبر میں لے کے جانا ہے، اور جو کمائیں انہوں نے کون سے قبر میں لے جانے ہیں؟ قبر میں الماریاں اور کفن میں جیب تو ہوتے نہیں، اور جو مردوں کو جلاتے ہیں، ان کا تو قبر اور کفن بھی نہیں ہوتا۔
ان بندشوں سے کچھ فضائی آلودگی تو کم ہوئی ہے۔ سو ہوا بھی صاف، فضا بھی صاف، پودے اور درخت بھی سرسبز و شاداب، دریاؤں کا پانی بھی صاف اور نیلگوں سمندروں کی آلودگی بھی کم، جنگلات کا کٹاؤ بھی کچھ کم،گم شدہ پرندے اور بہت ساری تتلیاں یا بگز بھی ایک بار پھر نظر آنے لگے ہیں۔ یعنی اللہ نے جو خوبصورت فطرت بنایا تھا، اس کے کچھ خوبصورت نظارے پھر سے دیکھنے کو ملے ہیں۔ ہماری دریاؤں اور نہروں کے پانی کے اندر یہی ڈھیر سارا ایل جی فاسفورس اور نائٹروجن کی آمیزش سے ہے، جو اس گند سے پیدا ہوتے ہیں جو ہم ان نہروں اور دریاؤں میں چھوڑتے ہیں۔
ہم اور سارے زندہ سر سانس لیتے ہیں۔ یہ آکسیجن ہے جو زندگی کی ضامن ہے، اور جب سانس واپس نکالتے ہیں، وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو زہریلا ہے ۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے وہ بھی اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ بھی زندگی کے چھے اہم چیزوں میں سے ایک ہے لیکن زندگی کے لیے ان چھے چیزوں کا ایک تناسب ضروری ہے، حتی کہ آکسیجن بھی اگر ضرورت سے زیادہ بدن میں ڈال دیا، تو پھیپھڑے پھٹ جاتے ہیں، جن کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ان کی صحت اور حالت اور بیماری اور پھیپھڑوں کی کیفیت کو دیکھ کر ہی ان کو اس لیول تک آکسیجن دیا جاتا ہے۔ اور خدا کا کرم ہے کہ سارے جان دار کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالتے ہیں، تو درخت اور پودے جن کو انگلش میں ’’پلانٹس‘‘ کہاجاتا ہے یعنی ہر ایک پودا اور درخت قدرتِ خداوندی کاایک پلانٹ یعنی کارخانہ ہے جو یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کھاتا ہے، اور آکسیجن نکالتا ہے۔ جب کہ وہ جو اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ دن کے وقت جذب کرلیتے ہیں، اس کو رات کے وقت نکالتے ہیں کہ اضافی ہے۔
پوری دنیا میں ظلم کی انتہا ہے کہ جنگلات کی کٹائی ہر سال دنیا میں 18 ملین ایکڑ سے زیادہ جنگلات کاٹے جاتے ہیں، جس سے ایک تو وہ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تناسب کا بیڑا غرق ہوتا ہے، اور ساتھ ساتھ جنگلی حیات حیوانات، چرند و پرند اور کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے تباہ ہوجاتے ہیں، جس سے اللہ کا پیدا کردہ نظامِ فطرت درہم برہم ہوتا ہے کہ دنیا کا نظام ایکو سسٹم پر چلتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم جس شاخ پر بیٹھے ہیں، اسی کو کاٹ رہے ہیں، تو نتیجہ تو ظاہر ہے۔ پھر ایک طرف جنگلات کا یہ ظالمانہ قتل ہے اور اربابِ اختیار خاموش تو کیا وہی تو یہ سب کچھ کررہے ہیں کہ یا تو خود اس کاروبار میں ہیں، یا ان سے کمیشن یا بھتا لیتے ہیں۔ دوسری طرف شجرکاری کا مہم چلاتے ہیں، یعنی یہ کہ باپ اور دادا کو قتل کرو او رپھر بچوں کی تربیت کرو، تاکہ وہ بڑے ہوکر آکسیجن دے سکیں۔ سو جو دے رہے تھے، وہ تو تم نے قتل کردیے اور جو اَب لگارہے ہیں، وہ تو کئی سال تک اتنی آکسیجن دینے کے قابل ہی نہیں ہوں گے،کیا عقل مندی ہے۔
مزیدظلم سوسائٹی پر سو سائٹی بن رہی ہے کہ تعمیرات میں گھپلے بہت ہوسکتے ہیں، اور ہیں بھی وہ زرعی زمینوں پر۔ اس کو کہتے ہیں ترقی ۔ عجیب ترقی ہے کہ زمین کا پیداوار ختم کیا گیا۔ یہ معکوس ترقی ہے اور جو زرعی زمینیں ہیں ان کو ہم آرام کرنے نہیں دیتے۔ سو ان کی صلاحیتیں دن بدن کمزور ہوتی جاتی ہیں۔ البتہ کیمیکلز کے زور پر ہم ان سے کچھ نکال لیتے ہیں لیکن کب تک؟ یہی تو وہ اس کی قوت ہے جو ہم وقت سے پہلے پہلے بزور نچوڑتے ہیں۔
ساتھ ساتھ کوئلہ،تیل،گیس اور لکڑی کا بے دریغ جلانا انرجی کے حصول کے لیے کتنا خطرناک منظر ہے، جو کاربن ڈائی اکسائیڈ ہی میں اضافہ کررہا ہے کہ دو سو سال پہلے ماہرین کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 280 پارٹس فی ملین تھی، جو اب 400 پی پی ایم پر جاپہنچی ہے۔
اصل مسئلہ طاقت والوں کا ہے، اور دولت والوں کا ہے کہ ان کے مفادات ان چیزوں سے وابستہ ہیں لیکن وہ عقل کے پیادے ثابت ہوئے ہیں ۔ وہ سوچیں کہ کرونا سے تو لوگ پناہ لے کے گوشۂ عافیت میں چلے گئے، جہاں خوراک تو جیسا تیسا ہو کچھ روکھی سوکھی مل رہی ہے۔البتہ آکسیجن تو مل رہا ہے۔ سو جب آکسیجن کی مقدار خطرناک حد تک کم ہو اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہو، تو وہاں پر تو کھلی فضا میں ہوں یا بروج مشیدہ میں وہاں تو حیات کا جھونکا ہوگا نہیں، اور زہرکے پیالے موجود ہوں گے فری میں۔ تم اسے پیتے ہوں گے چاروناچار ۔ پیوگے بھی، تو مروگے اور نہ پیوگے، تو بھی مروگے۔ سو کیا اس کورونا پریکٹس اور معمولات سے انسانیت کے ہوس ٹھکانے لگ جائیں گے؟ یا پھر وہی چال، بے ڈھنگی اور وہی ظلم جو کائنات کے حیاتی تنوع کو تیزی سے ختم کررہا ہے، اور تنوع ہی حیات ہے ۔
’’انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لہا لنبلوہم ایہم احسن عملاً‘‘ یعنی زمین پر(یعنی کائنات میں)ہم نے جو کچھ پیدا کیا ہے (یہ نظم اور تنوع) تو یہ اس کی زینت ہے، تاکہ ہم آزمائیں کہ کون ان (انسانوں) میں عمل (کردار)کے حوالے سے بہترین ہے ۔
اللہ نے ایک اعلیٰ ترین ڈیزائنر ہو کے اس دنیا اور اس کے نظام کو بہت خوبصورت ڈیزائن کیا ہے، جس کا ہم نے حلیہ بگاڑ ا ہے، تو کہیں ڈیزائنر کو غصہ آئے اور پورے ڈئزائن ہی کو ریزہ ریزہ نہ کرے۔ تو خدارا سوچیں! بحیثیت انسان کے آگے ہم نے کیا کرنا ہے۔ وما علینا الا البلاغ!
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔