شاعر، مِزاح نگار، کالم نگار اور سفر نامہ نگار ابنِ انشاؔ کا اصل نام شیر محمد خان تھا اور تخلص انشا تھا۔ ابنِ انشاؔ کے قلمی نام سے مشہور ہوئے اور ایسے مشہور ہوئے کہ وفات کے 45 سال بعد بھی لوگوں کے دلوں اور یادوں میں زندہ ہیں۔
انشاؔ 15 جون 1927ء کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے کیا جب کہ 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کی ڈگری حاصل کی۔
انشاؔ 1962ء میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ وہ ’’ٹوکیو بک ڈویلپمنٹ پروگرام‘‘ کے وائس چیرمین اور ’’ایشین کو پبلی کیشنز پروگرام ٹوکیو‘‘ کی مرکزی مجلسِ اِدارت میں بھی بطورِ ممبر شامل تھے۔ اس کے علاوہ وہ یونیسکو کے مشیر بھی رہے اور اس حیثیت میں انھوں نے متعدد ملکوں کے دورے کیے۔ ان کے یہ دورے اُردو ادب کے محسن ثابت ہوئے کہ ان دوروں کے احوال کو ضبطِ تحریر میں لا کر انھوں نے سفر نامے کی صنف کو اپنی شگفتہ بیانی اور طنزیہ و مزاحیہ اسلوب کی بدولت ایک نئی جہت سے روشناس کیا۔ ان کے سفر نامے ’’آوارہ گرد کی ڈائری‘‘، ’’دنیا گول ہے‘‘، ’’ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں‘‘، ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ اور ’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘ آج بھی روزِ اول کی طرح مقبول ہیں۔
انشاؔ نے نثر میں ہلکا پھلکا مزاحیہ انداز اپنے کالموں میں بھی برقرار رکھا۔ وہ ’’روزنامہ جنگ کراچی‘‘ اور ’’روزنامہ امروز لاہور‘‘ کے ہفت روزہ ایڈیشنوں کے علاوہ ’’روزنامہ جنگ‘‘ کے ’’ہفت روزہ اخبارِ جہاں‘‘ میں فکاہیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے قلم کو کبھی نشتر نہیں بننے دیا۔ ہلکے پھلکے انداز میں مسال کی تشخیص کے ساتھ علاج بھی تجویز کرکے آگے بڑھ جاتے تھے۔ ان کے کالم قارئین میں بے حد مقبول تھے۔ ’’آپ سے کیا پردہ‘‘، ’’خمارِ گندم‘‘ اور ’’اُردو کی آخری کتاب‘‘ ان کے کالموں اور مضامین کے مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خطوط کا مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔ ان خطوط میں سے وہ خاصے کی چیز ہیں جو انھوں نے مرزا غالبؔ کے انداز میں تحریر کیے ہیں۔ دوسری زبانوں کے تراجم پر مشتمل دو ناول ’’اندھا کنواں‘‘ اور ’’انتقال‘‘ کے نام سے شایع ہو کر قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔
انشاؔ کا شمار اُردو ادب کے بڑے ناموں غالبؔ، حالیؔ اور احمد ندیمؔ قاسمی کے ساتھ لیا جا سکتا ہے جنھیں بیک وقت بطورِ شاعر اور نثر نگار یکساں شہرت ملی۔ گو کہ انشاؔ کی پہچان مِزاح نگار اور سفر نامہ نگار کی ہے مگر بطورِ شاعر بھی انھیں منفرد مقام ملا۔ ہندی زبان پر عبور رکھتے تھے اور اپنی شاعری میں ہندی الفاظ کا برجستہ استعمال کرکے انھوں نے اپنی شاعری میں ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ انھوں نے غزلیں، نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے وہ کبھی کبیر داس کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے انسان دوستی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا درس دیتے ہیں۔
اہلِ وفا سے ترکِ تعلق کر لو پر اِک بات کہیں
کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انھیں پکارو گے
کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں، محرومیوں اور دکھوں کا میر تقی میرؔ کی طرح اظہار کرتے ہیں۔
اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
کہیں کہیں انشاؔ، نظیرؔ اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ بڑی سادگی سے اور عوامی زبان میں عوام کے احساسات کو شعروں کا روپ دیتے ہیں۔
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے، پربت ترے، بستی تری صحرا ترا
انشاؔ کے شعری مجموعے ’’چاند نگر‘‘، ’’اس بستی کے اِک کوچے میں‘‘، ’’دلِ وحشی‘‘ اور ’’بلو کا بستہ (بچوں کے لیے نظمیں)‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آئے۔
انشاؔ کینسر کے موذی مرض کا شکار ہوکر علاج کی غرض سے لندن چلے گئے، جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ انھیں کراچی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اپنی وفات سے ایک مہینا پہلے انھوں نے اپنی مشہورِ زمانہ غزل لکھی تھی۔ شاید انھیں اپنی موت کا یقین ہوگیا تھا۔
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
انشاؔ کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 1976ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ انشاؔ جسمانی طور پر اس وقت ہمارے ساتھ موجود نہیں، مگر ان کی یادیں اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
انشا کی شہرہ آفاق غزل سے اس مطلع کے ساتھ اجازت چاہوں گا :
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔