’’کمرا‘‘ (پرتگالی، اسمِ مذکر) کا اِملا عام طور پر ’’کمرہ‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’جامع اُردو لغت‘‘ اور ’’حسن اللغات (جامع)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’کمرا‘‘ ہے۔
جب کہ ’’نور اللغات‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’کمرہ‘‘ ہے۔
’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’کمرا‘‘ ہے مگر ذیل میں یہ صراحت بھی درج ملتی ہے: ’’نیز کمرہ۔‘‘
’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’کمرا‘‘ ہے مگر ذیل میں یہ الفاظ بھی درج ملتے ہیں: ’’اصل پرتگالی میں کمرا ہے، لاطینی میں کمیرا Camera ہے جب کہ فارسی میں کمرہ مستعمل ہے۔‘‘
اب طُرفہ تماشا یہ ہے کہ اُردو زبان میں مستعمل عربی، فارسی اور ترکی الفاظ کا ذخیرہ جمع کرنے والی ’’فرہنگِ عامرہ‘‘ (جسے فارسی الفاظ کی مستند فرہنگ تسلیم کیا جاتا ہے) کے مطابق مذکورہ لفظ کا صحیح اِملا ’’کمرا‘‘ ہے نہ کہ ’’کمرہ‘‘۔
اس حوالے سے جب اُردو اِملا پر سند کی حیثیت رکھنے والے رشید حسن خان سے رجوع کریں، تو وہ اپنی کتاب ’’اُردو اِملا‘‘ (مطبوعہ زُبیر بکس، اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 307 پر اس لفظ کا صحیح اِملا ’’کمرا‘‘ درج کرتے پائے جاتے ہیں۔
’’کمرا‘‘ کے معنی ’’انگریزی وضع کا کوٹھا‘‘، ’’خانہ‘‘، ’’حجرہ‘‘، ’’کوٹھا‘‘، ’’کوٹھڑی‘‘، ’’خلوت خانہ‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
اس حوالے سے صاحبِ آصفیہ نے دو مشہور فارسی شعرا ارزقیؔ اور انوریؔ کے اشعار بالترتیب یوں درج کیے ہیں:
گہے از گردِشِ کیواں بہ دریا بر زند کلّہ
گہے از گوشۂ گردوں بکیواں بر پرو کمرا
از لحد گور تا بہ دوزخ نفساں
راہ شد طاق و طاق را کمرا
اس حوالے سے حضرتِ شین کاف نظام کا ایک شعر بھی نمونتاً درج کیا جاتا ہے:
تو اکیلا ہے بند ہے کمرا
اب تو چہرا اُتار کر رکھ دے
جونؔ ایلیا کے اس شعر پر نشست برخاست ہوگی کہ
یاں اُس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے