ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو ایک سے زیادہ شعبوں میں یکساں مہارت اور عبور رکھتے ہوں۔ پنجاب کے سابق وزیرٍ اعلا اور گورنر حنیف رامے ایسی چند نابغہ روزگار ہستیوں میں سے تھے، جنھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں طبع آزمائی کی اور تمام شعبوں میں کامیابی کی بلندیوں تک پہنچے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے: 
https://lafzuna.com/author/rafi/
وہ نام ور ادیب، اعلا پائے کے شاعر، بہت بڑے مصور اور خطاط، کامیاب کالم نگار، مدیر، دانش ور، سمجھ دار بزنس مین اور انتہائی کامیاب سیاست دان تھے۔
حنیف رامے 15 مارچ 1930ء کو ننکانہ کے قریب ایک گاؤں پنچک بچیکی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چوہدری غلام حسین ارائیں کاشت کار برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
حنیف رامے کا پورا خاندان چوہدری کہلاتا تھا، لیکن انجوں نے یہ کَہ کر اپنے نام کے ساتھ چوہدری نہیں لگایا کہ میں ایک غریب ماں کا بیٹا ہوں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پنجاب کی سب سے بڑی چوہدری کی پگ ان کے سر پر سج گئی اور وہ پنجاب کے وزیرٍ اعلا بن گئے۔
حنیف رامے دس سال کی عمر میں لاہور آگئے اور اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ میں داخلہ لے لیا۔ 1952ء میں انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ گورنمنٹ کالج میں اپنی تعلیم کے دوران میں وہ کالج کے رسالہ راوی کے مدیر بھی رہے۔ ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ لارنس کالج گھوڑا گلی میں بطورِ استاد اپنی خدمات سرانجام دیں۔ بعد میں حنیف رامے معروف اشاعتی ادارے ’’مکتبۂ جدیدّّ سے بطورِ مدیر وابستہ ہوگئے، جو ان کے بھائی چوہدری نذیر کی ملکیت تھا۔
حنیف رامے نے معروف و معتبر ادبی رسالے ’’سویرا‘‘ کی ادارت کے فرایض بھی انجام دیے۔ ’’سویرا‘‘ سے الگ ہونے کے بعد انھوں نے ’’نصرت‘‘ کے نام سے اپنا معیاری ادبی رسالہ نکالنا شروع کر دیا اور ’’البیان‘‘ کے نام سے اپنا اشاعتی ادارہ بھی قایم کرلیا۔ اسی عرصے میں انھوں نے مصوری کا کام بھی شروع کر دیا۔
1965ء میں حنیف رامے مرکزی اُردو بورڈ سے وابستہ ہوئے اورڈائریکٹر کے طور پر وہاں کام کیا۔
جہاں تک حنیف رامے کے سیاسی کیریئر کا تعلق ہے، تو انھوں نے 1960ء میں مسلم لیگ سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ ایوب خان کی ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘ سے 1967ء میں وہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ میں چلے آئے اور اس کی اصولی کمیٹی کے رکن بن گئے۔
حنیف رامے نے اپنے اشاعتی و صحافتی تجربے کا فایدہ اٹھاتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی آشیرباد سے 1970ء میں ’’روزنامہ مساوات‘‘ جاری کیا۔ یہ اخبار پاکستان پیپلز پارٹی کا ترجمان تھا۔ پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ’’اسلامی سوشل ازم‘‘ کا نفاذ بھی تھا۔ اس اصطلاح کو فروغ دینے والوں میں حنیف رامے پیش پیش تھے۔
پارٹی کے لیے گِراں قدر خدمات انجام دینے پر 1972ء میں حنیف رامے پنجاب کے مشیرِ خزانہ بنائے گئے اور بعد ازاں مارچ 1974ء میں پنجاب کے وزیرٍ اعلا منتخب ہوگئے۔ چار جولائی 1974ء کو پارٹی کی ہدایت پر وہ اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ 1975ء میں سینیٹر بنا دیے گئے، مگر چند ماہ بعد ہی پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ یوں وہ پارٹی چھوڑ کر پیرپگارا سے جا ملے۔
پگارا نے حنیف رامے کو مسلم لیگ کا چیف آرگنائزر بنا دیا۔ اُس زمانے میں انھوں نے بھٹو کے خلاف خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اخباروں میں ان کے خلاف مضامین لکھے، جن میں ایک پمفلٹ ’’بھٹو جی، پُھٹو جی‘‘ بہت مشہور ہوا، مگر انھیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ اُن پر ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور خصوصی عدالت کے ذریعے ساڑھے چار سال قید کی سزا سنا کر بدنامِ زمانہ دلائی کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ 1977ء میں جنرل ضیا کے مارشل لا لگتے ہی حنیف رامے کو لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے رہائی مل گئی اور وہ امریکہ چلے گئے۔
امریکہ میں حنیف رامے نے پٹرول پمپ چلانے کے علاوہ برکلے یونیورسٹی میں بطورِ استاد بھی کام کیا۔
چھے سال بعد امریکہ سے واپس آ کر انھوں نے مساوات پارٹی کی بنیاد رکھی…… اور عوام کو ’’رب روٹی، لوک راج‘‘ کا نعرہ دیا۔ اس پارٹی کا پنجابی نعرہ ’’کُلّی، گُلّی، جُلّی‘‘ تھا جو پیپلز پارٹی کے نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے مقابلے میں تیار کیا گیا تھا۔ تاہم ان کی پارٹی عوامی مقبولیت حاصل نہ کرسکی اور اس پارٹی کو غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا گیا۔
1988ء میں حنیف رامے دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ 1993ء میں وہ رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، تو پارٹی نے انھیں سپیکر پنجاب اسمبلی بنا دیا۔
پنجاب کی سیاست پر حنیف رامے نے اپنی کتاب ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ لکھ کر زبردست داد سمیٹی۔ ان کی دیگر کتابوں میں ’’اسلام کی روحانی قدریں‘‘، ’’موت نہیں زندگی‘‘ اور ’’دُبٍ اکبر‘‘ کے علاوہ نظموں کا مجموعہ ’’دن کا پھول‘‘ کے نام سرِ فہرست ہیں۔
حنیف رامے کو پنجابی زبان کے فروغ سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ پنجابی زبان کے احیا اور سکولوں میں ابتدائی سطح سے پنجابی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے حق میں تھے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے انھوں نے ’’پنجابی ایکا‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی تھی جس کی شاخیں پنجاب کے قریباً ہر ضلع میں قایم کی گئی تھیں۔ عمر کے آخری حصے میں انھوں نے قومی اخبارات میں فکر انگیز مضامین بھی لکھے، جن میں عالمِ اسلام کو جدید دنیا میں اسلام کی ترقی پسندانہ تعبیر اور جدید تعلیم پر زور دینے کا راستہ تجویز کیا۔
حنیف رامے نے مصوری میں بھی نام کمایا۔ ان کو خطاطی کے فن میں نئے دبستان کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔
حنیف رامے نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی شاہین رامے کے انتقال کے بعد جائیس سکینہ نامی امریکی خاتون سے دوسری شادی کی۔ ان کی بیٹی مریم رامے نے گلوکاری کے شعبے کو اپنایا اور کامیاب رہیں۔
یکم جنوری 2006ء کو حنیف رامے کا انتقال ہوگیا۔ انھیں ڈیفنس کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔