موسم اور اس کی تبدیلی قدرت کا ایسا کرشمہ ہے جس پر غور کرنے سے نہ صرف انسان پر خالقِ کائنات کی مصلحتوں کا بھید کھلتا ہے، بلکہ انسان سجدۂ شکر ادا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ انھی موسمی تغیرات کی وجہ سے نہ صرف ہمیں رس بھرے خوش ذایقہ پھل اور میوے میسر آتے ہیں بلکہ رنگ برنگے پھولوں کی رعنائیاں اس کرۂ ارض کی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔
فیضان عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/faizan/
موسموں کے بدلنے سے برف گرتی اور پھر پگھلتی ہے جس کے نتیجے میں آبشاریں، جھیلیں اور دریا جنم لیتے ہیں۔ دریاؤں کی روانی ہمارے کھیتوں کو سیراب کرتی ہے جس سے انسانوں کو غذا اور اجناس مہیا ہوتی ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں کو خدائے بزرگ و برتر نے الگ الگ موسموں سے نوازا ہے۔ کسی ملک اور خطے میں سرد موسم کا دورانیہ زیادہ طویل ہوتا ہے، تو کہیں جھلسا دینے والے گرم موسم کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے۔ جو پھل پھول اور سبزیاں گرم ملکوں میں اُگتی ہیں، سرد ممالک کے لوگ ان کے ذایقوں سے ناآشنا ہیں۔ اسی طرح ٹھنڈے ملکوں کی قدرتی نعمتوں سے گرم ملکوں کے لوگ واقف نہیں۔
موسم اللہ کی نعمت ہیں۔ ہر خطے کے لوگ اپنے مقامی موسم کے عادی ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے جن حصوں میں ہر وقت برف جمی رہتی ہے، وہاں بھی لوگ اپنے معمولاتِ زندگی جاری رکھتے ہیں اور جہاں سال کے آٹھ مہینے بلا کی گرمی پڑتی ہے، وہاں بھی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ ویسے تو انسانوں کی اکثریت کسی حال میں خوش نہیں رہتی۔ سردی سے اُکتائے ہوئے انسان گرم ملکوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور گرمی کے مارے ہوئے لوگ ٹھنڈے ملکوں میں زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔
انسان کے اپنے اندر بھی ایک موسم ہوتا ہے اور اگر اندر کا یہ موسم ٹھیک ہو، تو وہ اس بات سے بے نیاز ہوجاتا ہے کہ اس کے ارد گرد ماحول کا موسم کیسا ہے؟ یہ سب انسان کی اپنی اندر کی کیفیت پر منحصر ہے۔ رسا چغتائی نے کہا تھا:
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
برطانیہ سمیت یورپ کے بہت سے ٹھنڈے ملکوں کے لوگ چھٹیاں گزارنے کے لیے گرم ملکوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اسی لیے دبئی، ترکی، مراکو اور سپین کے کنیری آئی لینڈز (CANARY ISLANDS) یورپی سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ کا قصور کیا تھا؟:
https://lafzuna.com/blog/s-30471/
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور دیگر کئی یورپی ملکوں میں موسمِ گرما کے دورانیے اور درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 19 جولائی کو برطانیہ اور خاص طور پر لندن میں اتنی شدید گرمی پڑی کہ ہم تارکینِ وطن کو پاکستان یاد آگیا۔ برطانوی دارالحکومت میں درجۂ حرارت 40 ڈگری سنٹی گریڈ تک جا پہنچا جو کہ اب تک پڑنے والی سب سے زیادہ گرمی کا ایک ریکارڈ ہے۔ لندن میں گھر اس طرح کے بنائے گئے ہیں کہ جو اپنے مکینوں کو صرف سردی کی شدت سے بچا سکیں۔ گرمی سے بچاو کے لیے اب گھروں میں پنکھے لگائے جانے کا رواج بڑھ رہا ہے۔ بسوں اور ٹرینوں کو ایئر کنڈیشنڈ کیا جانے لگا ہے۔ شاپنگ سنٹرز میں بھی ائیر کنڈیشنرز ناگزیر ہوگئے ہیں۔ لندن چوں کہ پارکوں، جھیلوں اور درختوں کے ذخیروں کا شہر ہے، اس لیے 21 جولائی کی ریکارڈ گرمی کے سبب پارکوں میں لوگوں کا غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا۔ مرد اور عورتیں برائے نام لباس میں گرم موسم کی شدت کو کم کرنے کے لیے آئس کریم اور ٹھنڈے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھائی دیے۔ سکولوں اور دفتروں میں حاضری کم رہی۔ حکومت کی طرف سے گرمی سے بچاو کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی گئیں۔ دو دن کے لیے ملک بھر میں ڈاک کی ترسیل اور تقسیم معطل رہی۔ بزرگوں اور بچوں کو گرمی سے بچنے کے لیے خاص طور پر متنبہ کیا گیا۔
جب بھی موسمِ گرما آتا ہے، تو برطانیہ اور یورپ میں آباد ہم تارکینِ وطن کو موسمی پھلوں خاص طور پر آم، جامن، شہتوت اور فالسے کے ذایقے یاد آنے لگتے ہیں۔ آم تو خیر اب لندن میں بھی دست یاب ہے، لیکن دیگر مذکورہ بالا پھل کھائے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ حالاں کہ برطانیہ میں سیب، بگو گوشے، آلوبخارے، چیری، خوبانی، سٹرابیری اور دیگر کئی پھلوں کی بہترین اقسام پیدا ہوتی ہیں اور دنیا بھر سے اور بہت سے پھل بھی امپورٹ کیے جاتے ہیں۔ انسان ہو یا پھل دار درخت یا پودے…… جب انھیں کسی ایک ایسی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے جہاں کا موسم اور ماحول ان کے لیے سازگار نہ ہو، تو وہاں ان کی نشو و نما رُک جاتی ہے اور وہ پھل دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ نئے موسم کے عادی توضرور ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے اندر کا موسم یکسر بدل جاتا ہے۔
انسپریشن:
https://lafzuna.com/blog/s-30351/
مجھے یاد ہے کہ 1993ء میں لندن آنے سے پہلے جب میں بہاول پور میں جون جولائی کی گرمی سے بے زار ہوتا تھا، تو اکثر یہ سوچتا تھا کہ دنیا کے ایسے خطے میں جا کر رہنا چاہیے جہاں ہر وقت موسمِ بہار ہو۔ چند سال پہلے مجھے سپین کے کنیر ی آئی لینڈز میں ٹینی ریف (TENERIFE) جانے کا موقع ملا۔ واقعی یہ جزیرہ خوابوں کی دنیا ہے، جہاں ہر وقت موسمِ بہار ہوتا ہے۔ سارا سال درجۂ حرارت 15سے 28 ڈگری سنٹی گریڈ رہتا ہے۔ ایٹلانٹک اوشن کے شفاف نیلے پانیوں کے درمیان یہ شان دار جزیرہ دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جو ایک بار اس جزیرے کی ساحلی ہواؤں کی گنگناہٹ اور موسمِ بہار کا اسیر ہو جاتا ہے، وہ بار بار اس جگہ آنے کا خواہش مند رہتا ہے۔
مجھے بھی تین بار اس جزیرے پر چھٹیاں گزارنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس پُرکشش جزیرے کا آتش فشانی پہاڑی سلسلہ، گھنے جنگلات اور تیز رفتار واٹر بوٹ پر دور تک نیلے سمندر میں گھومنا زندگی بھر کے لیے ناقابلِ فراموش ہو جاتا ہے۔ آپ سال کے کسی بھی مہینے میں اس جزیرے پر اُتریں تو موسمِ بہار آپ کا منتظر ہوگا۔ اسی لیے ’’ٹینی ریف‘‘ یعنی کنیری آئی لینڈز کے موسم کو دنیا میں سب سے بہترین موسم قرار دیا جاتا ہے۔
گذشتہ سال تقریباً 30 لاکھ سیاح اس جزیرے پر چھٹیاں گزارنے کے لیے آئے۔ برطانیہ کی سردی سے اُکتائے ہوئے انگریزوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنھوں نے کنیری آئی لینڈز کو اپنی مستقل رہایش گاہ بنا رکھا ہے اور وہ کبھی کبھار اچھے موسم میں گھومنے پھرنے کے لیے برطانیہ آتے ہیں۔
افغانستان کا مستقبل:
https://lafzuna.com/blog/s-30183/
قارئین کرام! ظاہر ہے جو لوگ سال کے بارہ مہینے بہار کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوں…… انھیں جولائی میں لندن آکر 40 ڈگری سنٹی گریڈ میں جھلسنے کی کیا ضرورت ہے؟
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔