صحت مند لوگ، متوازن غذا، وسائل کی فراوانی، صاف ماحول، صحت بخش پانی، محبت بھرے جذبے اور مثالی امن و امان کبھی دیہی زندگی کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ اب کمزور صحت، غیر متوازن خوراک، گندا ماحول، آلودہ پانی، غربت اور جہالت اس کی پہچان ہے۔ خوشبودار ہوا، فصلیں اور کھیت کھلیان اب بدبودار جوہڑوں اور گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ وہ مکئی اور گندم کی نرم اور ذائقہ دار روٹی جس کی خوشبو پورے محلہ میں پھیلتی، اس کی جگہ اب فلور ملوں کے تھیلوں نے لے لی ہے۔ گائے بھینس کے تازہ اور خالص دودھ کی بجائے اب وہاں ملک پیک بکتے ہیں۔ دیسی گھی، دیسی مرغ، دیسی انڈا، دیسی شہد کا نام اب صرف چند ایک سرمایہ دار لوگوں کے گھروں میں لیا جاتا ہے۔ عام گھروں میں گندم، مکئی اور چاول کے وہ خمبے اب کہاں؟ ہاں ان کا ذکراب کتابوں میں ملتا ہے۔ وہ دیسی جڑی بوٹیاں اب ختم ہو رہی ہیں جو گاؤں کے لوگ مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال میں لاتے تھے بلکہ شہر کے لوگ بھی ان جڑی بوٹیوں سے ہی استفادہ کرتے تھے۔ بدقسمتی سے موجودہ ناکارہ زرعی پیداواری نظام میں زرعی ادویات، کیمیکلز، ہائبرڈائزیشن اور مشینری کے کلچر کو فروغ ملا جس کے اندھا دھند استعمال نے وقت کے ساتھ ساتھ کاشت کاروں کو بھوک، بیماریوں اور نت نئی پریشانیوں میں مبتلا کردیا۔ زرعی ادویات اور کھاد کے بے جا اور بلاضرورت استعمال نے حیاتیاتی تنوع کا کباڑا کردیا ہے۔ کبھی دیہاتوں میں سیب، آڑو، ناشپاتی، خوبانی، جاپانی پھل اور دیگر میوہ دار درختوں کی متعدد دیسی اقسام پائی جاتی تھیں۔ اب ان کی جگہ محدود اقسام کے پھلوں نے لے لی ہے۔ اب دیہاتوں کے وسائل بھی معدوم ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ کیوں کہ دیہات کی معیشت مکمل طور پر زراعت ہی پرمنحصر تھی۔ گاؤں کا نائی، گوجر، موچی، چوکیدار اور دیگر تمام محنت کشوں کا گزر بسر کھیتی باڑی ہی سے منسلک تھا اور ان سب کی وجہ سے زندگی بھی آسان اور پُرلطف تھی۔ فصل کی بوائی، کٹائی، چارہ کاٹنے اور پھر بھوسا جمع کرنے کے لیے ’’اشر‘‘ ہوتے، گاؤں اور محلہ میں رات کو اطلاع دی جاتی اور اگلے دن کام کی جگہ پر درجنوں لوگ اکٹھے ہو کر ہفتوں کا کام گھنٹوں میں ختم کردیتے۔ بلاشبہ اس دور کے ان رسومات کے کچھ منفی پہلوؤں پر بھی بات کی جاسکتی ہے لیکن مجموعی طور پر اکثر علاقوں میں امن و امان، بھائی چارہ اور ماحول کے حوالہ سے اس کے مثبت اثرات زیادہ واضح، زیادہ نتیجہ خیز اور زیادہ مفید تھے۔ لکڑی کے مضبوط ڈنڈے کے ساتھ مکئی کی تھرشنگ کی جاتی، اس کے لیے رات کو محلہ کے نوجوانوں کا ’’اشر‘‘ ہوتا، اب اس زرعی تکون کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے جس میں گاؤں ہی کی سطح پر پروڈیوسر،سپلائرز اور کنزیومرز کا ایک مضبوط رشتہ جڑیں پکڑ چکا تھا۔ سبز انقلاب کے سحر نے ابتدا میں غلے کے ڈھیر تو لگادیے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے ہماری ریڑھ کی ہڈی ’’کسان‘‘ کو کینسر زدہ کر دیا۔ اب کسان بیمار ہے۔ اس کی زمین کی محدود پیداواری صلاحیت صرف اور صرف مصنوعی کھادوں، زہریلی ادویات اور ہائبرڈ بیج کی مرہون منت ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جان بہ لب مریض کو آکسیجن پر رکھا جائے۔ اب محنت کش کیا عام کاشت کار بھی اپنا پیشہ چھوڑ کر شہری علاقوں کو ہجرت کرنے پر مجبور ہے، جہاں کنبے کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہ کہیں نہ کہیں مزدوری کے مواقع تلاش کرنے میں مگن رہتا ہے۔ جب کہ دیہاتی کاشت کار اتنی پیداوار حاصل کرلیتا ہے جو اس کی اپنی ضروریات بھی مشکل سے پورا کرتی ہے۔ اب دیہاتوں میں نشہ آور اشیا عام ہیں۔ جرائم زوروں پر ہیں۔ امن و امان برائے نام ہے۔ قتل و غارت روز کا معمول ہے۔ کیوں کہ وسائل کے ذرائع محدود اور اس پر جینے کا انحصار کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

گاؤں کوکارئی میں آج سے 20 سال پہلے 30 سے زیادہ پن چکیاں تھیں جب کہ پوری وادی میں پن چکیوں کی تعداد پندرہ سو سے بھی زائد تھی۔ (Photo: saywriters.net)

وادیٔ سوات کے گاؤں کوکارئی میں آج سے 20 سال پہلے 30 سے زیادہ پن چکیاں تھیں جب کہ پوری وادی میں پن چکیوں کی تعداد پندرہ سو سے بھی زائد تھی۔ جہاں لوگ گندم، مکئی اور کٹے ہوئے چاول سے آٹا پیستے۔ یہ پن چکیاں دن رات چلتی تھیں اور غلے کا دسواں حصہ بہ طور خدمت وصول کرتی تھیں۔ ہر پن چکی دو خاندانوں کے سال بھر غلے کی ضروریات پورا کرتی تھی۔ اب یہ پن چکیاں ختم ہونے کو ہیں، کیوں کہ اب کاشت کار اپنا غلہ ذخیرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ غلہ اُگاتا ہے اس کا 75 فی صد سے زیادہ آڑھتی، کمیشن ایجنٹ، کھاد، بیج اور دیگر قرضوں میں وصول کرلیتا ہے اور باقی 25 فیصد کسان فروخت کرتا ہے۔ سیکڑوں خاندانوں کا وسیلۂ رزق مال مویشی کا دودھ، گوشت، مرغیوں، انڈوں، دیسی گھی، شہد، جنگلات اور جڑی بوٹیوں کے کاروبار سے منسلک تھا۔ اب ان ذرائع میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ یہ صورتحال صرف پاکستان ہی کی نہیں قریباً تمام ترقی پذیر ممالک کے زیادہ تر کاشت کاروں کے لیے یہ ایک المیہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں قدرتی وسائل بے پناہ دباؤ میں ہیں۔ پانی کی کمی، زرعی زمینوں کے رقبہ میں تسلسل کے ساتھ کمی جس میں سیم تھور، زمینی کٹاؤ، سیلاب اور طوفان کی وجہ سے زمین کی قدرتی ساخت متاثر ہو رہی ہے، شامل ہیں۔ ایف اے او (فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن) کے مطابق105 ترقی پذیر ممالک میں 64 ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی اپنی غذائی پیداوار کے مقابلہ میں زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور آبادی کے دباؤ نے اب تک2 بلین ہیکٹر (یعنی قریباً 5 بلین ایکڑ) زرعی زمین کو پیداوار سے محروم کردیاہے۔ یہ رقبہ امریکہ اور کینیڈا کے مجموعی رقبہ کے لگ بھگ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ایم لکشمی ناراسایے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں آلودہ پانی اور صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے 12 ملین لوگ ہر سال ابدی نیند سوتے ہیں جب کہ فضائی آلودگی مزید تیس لاکھ لوگوں کی جان لے لیتی ہے جس کی شرح دیہاتوں میں زیادہ ہے۔ آبادی میں اضافہ اور جدید کھیتی باڑی کی وجہ سے پانی کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ 2025ء میں دنیا کی آبادی 8 ارب تک پہنچ جائے گی۔ 48 ممالک کے 3 بلین لوگ پانی کی کمی کا شکار ہوں گے۔ دنیا کے قریباً 50 فی صد جنگلات کا صفایا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی آلودگی کے رجحانات خطرناک صورت اختیار کرنے والے ہیں۔ زمین کی حیاتیاتی زراعت، ادویات، ماحول، صحت حتیٰ کہ زندگی کے لیے بنیادی ضرورت ہے لیکن انسان کی موجودہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہزاروں قسم کے پودے، جانور اور جنگلی حیات تیزی کے ساتھ ناپید ہو رہی ہے۔ زرعی ادویات کا اسپرے نقصان دہ کیڑے مکوڑوں کے لیے کارآمد ہوگا لیکن یہ اپنے ساتھ ان کیڑے مکوڑوں کا بھی صفایا کرتا ہے جو زراعت، ماحول اور قدرتی نظام کو اعتدال میں رکھنے کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوتے ہیں۔

2025ء میں دنیا کی آبادی 8 ارب تک پہنچ جائے گی۔ 48 ممالک کے 3 بلین لوگ پانی کی کمی کا شکار ہوں گے۔ (Photo: wholelifeworship.com)

اگر پالیسی ساز اور منصوبہ ساز معاشی سیکٹر کی سرگرمیوں کو ماحول اور صحت کے شعبہ سے مربوط کرلیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے منفی اثرات سے بچا جاسکے۔ عمومی طور پر خدمات اور پیداوار کی قیمتوں میں ماحول اور حفظانِ صحت پر اٹھنے والے اخراجات شامل کرنے کا کوئی طریقہ وضع نہیں ہو پا رہا، جب کہ پروڈیوسر اور کنزیومر ازخود ماحول کی صفائی کا بوجھ اٹھانے سے رہے۔ المیہ یہ ہے کہ ماحول اورحفظان صحت کے ماہرین معاشی دلائل سے متعلق بہت کم جانتے ہیں اور معاشی سیکٹر بسا اوقات ماحول اور صحت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ معاشی، ماحولیاتی اور صحت کے شعبہ میں تعاون بڑھانے اور ان شعبوں میں کام کرنے والے ماہرین کے درمیان تعاون اور استعداد کار بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں جب کہ جاری منصوبوں اور آئندہ کے پروگراموں کے حوالہ سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھائیں۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔