’’بیٹا! آپ اپنی امی سے اجازت لے کر یہاں آئی ہیں؟‘‘ مَیں نے اپنی میڈ کی بیٹی سے مخاطب ہوکر پوچھا (جس کی عمر لگ بھگ دس سال ہے) جو کافی دیر سے میرے بیٹے کے ساتھ کھیل میں مصروف تھی۔
’’نہیں!‘‘ بچی نے جواب دیا۔
میرے ساتھ بیٹھی دوست نے مزید اضافہ کیا: ’’یہ تو سارا دن اِدھر اُدھر گلیوں میں پھرتی رہتی ہے…… اس کی ماں کو کوئی پروا نہیں کہ بیٹی کہاں ہے اس ٹائم……!‘‘
مَیں اُن بچوں کے متعلق سوچ رہی ہوں جو گلیوں میں کھیل کود کے دوران میں کسی کی درندگی کا شکار ہوکر ’’سوشل میڈیا‘‘ کی ’’ہائپ‘‘ بن جاتے ہیں۔ ’’انصاف دو!‘‘ جیسے ٹرینڈ اور پھر شیئرنگ، لائکس، تجزیے، تبصرے، ’’برطرف کردو!‘‘، ’’پھانسی دو!‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

کچھ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں


اور پھر معاملات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔ کوئی پھر اسے سیاست کا رنگ دیتا ہے…… اور کوئی اپنے چینل کی ریٹنگز بڑھانا چاہتا ہے ایسے واقعات کی بدولت۔
یقینا بچوں کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔ ریاست کو کوسنے اور اسے اس کی ذمے داری یاد دلانے کے لیے روزانہ ہزاروں آرٹیکل چھپتے ہیں…… اور کئی تجزیے بھی ہوتے ہیں۔ مجھے ریاست کو اس کی ذمے داری یاد دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں!
کیا ہم نے کبھی ایسے واقعات کو "Bad Parenting” (یہاں پیرنٹنگ سے مراد تربیت ہر گز نہیں) کی نظر سے دیکھا ہے؟ کیوں کہ واقعات محض غریب بچوں کے ساتھ پیش نہیں آتے، بنگلوں میں رہنے والے امیر بچے بھی لاپروا والدین کی وجہ سے اکثر ایسے یا شاید اس سے کم نوعیت کے حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔

اروند کجریوال ہی سے کچھ سیکھ لیں


ہم یقینا کسی مغربی فلاحی ریاست (مجھے علم نہیں کہ ان فلاحی ریاستوں میں ایسے واقعات ہوتے ہیں یا نہیں…… لیکن عموماً لوگ ان ریاستوں میں انسانیت اور قانونی بالادستی کی مثال دیتے پائے جاتے ہیں) میں نہیں رہ رہے۔ یہاں کافی سارے کام اپنی مدد آپ کرنے پڑتے ہیں۔ آپ کو خود اپنے بچوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ آپ کے جگر کے ٹکڑے مر رہے ہیں یا تکلیف میں ہیں…… ریاست کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

سیاست کوئی جرم نہیں


بچوں کی دیکھ بھال ایک بہت ہی کٹھن جاب ہے۔ پاکستان جیسا خطہ جہاں آسایشوں کا فقدان ہے (ضروریاتِ زندگی پوری نہیں ہوتیں، تو آسایشوں کا تو تصور ہی بے کار ہے) وہاں اس جاب کو انجام دینا ہرگز آسان نہیں۔ بحیثیتِ والدین اپنے بچوں کا خیال رکھنا میرے نزدیک دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ یہ جاب 24 گھنٹے اور 365 دن بلاناغہ کرنا پڑتی ہے۔ آپ امیر ہیں یا غریب، پختون ہیں یا پنجابی، اگر پاکستان جیسے خطے کے شہری ہونے پر مجبور ہیں، تو ’’فرشتہ‘‘ اور ’’زینب‘‘ جیسی معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی اور دل دہلانے والے واقعات کو کم سے کم کرنے کے لیے ذمے دار والدین ہونے کا فرض ادا کرنا ہوگا۔ ایسے واقعات میں اَن گنت پہلو شامل ہوتے ہیں…… جن میں سے ایک کی طرف مَیں نے نشان دہی کی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔